تسلیم عارف: وہ جو تاریک راہوں میں مارا گیا!
تسلیم عارف، کرکٹ کی دنیا کا وہ نام، جس کی زندگی ایک طویل جدوجہد سے عبارت تھی۔ قدم قدم پر جس کا راستہ روکا گیا، وہ اپنی صلاحیتوں کے سہارے آگے بڑھتا گیا اور قدرت سے اسے وہ سب کچھ حاصل ہوا، جس کی لوگ تمنا کرتے ہیں۔
اسے ٹیسٹ کرکٹ میں آنے سے پہلے ٹیسٹ کرکٹرز جیسی شہرت عطا ہوئی۔ کیری پیکر کی پروفیشنل آرگنائزیشن کا وہ واحد ایشیائی کھلاڑی قرار پایا، جو انٹرنیشنل کرکٹ کھیلے بغیر اس کا حصہ بنا۔ اس کے علاوہ دنیا بھر میں مختلف سطح کی کرکٹ میں نام پیدا کرتا رہا۔
اس کی یہ کامیابیاں بین الاقوامی سطح پر اس کی صلاحیتوں کا اعتراف تھیں، لیکن اپنے وطن میں وہ بے یارومددگار تھا، کیوں کہ اس کے اپنے لوگ اس کی صلاحیتوں سے خوفزدہ تھے۔ وہ جانتے تھے کہ تسلیم عارف کو ٹیم میں موقع دینا بیک وقت دو کھلاڑیوں کے کیریر کو خطرے میں ڈال سکتا ہے، لہذا بہتر یہی ہے کہ اسے ٹیم میں شامل نہ ہونے دیا جائے ۔
تسلیم عارف دائیں ہاتھ کے اسٹائلش اوپننگ بیٹسمین اور عمدہ وکٹ کیپر کی حیثیت سے کرکٹ کی دنیا میں داخل ہوئے۔ ان کے فرسٹ کلاس کیرئیر کا آغاز 1968 میں ہوا اور گیارہ برس کی طویل جدوجہد کے بعد انہیں 1979 میں ٹیسٹ میچ کھیلنے کا موقع دیا گیا۔ وہ بھی اس لئے کہ ماجد خان کا بحیثیت اوپننگ بیٹسمین کیرئیر ختم ہو گیا تھا، جب کہ وسیم باری بدستور وکٹ کیپر کی حیثیت سے قدم جمائے ہوئے تھے، سو تسلیم عارف کو اوپننگ بیٹسمین کی حیثیت سے موقع دیا گیا۔
پھر وہی ہوا، جس کا مخالفین کو ڈر تھا۔ کلکتا کے ایڈن گارڈن میں اپنے پہلے ہی ٹیسٹ میچ کی دونوں اننگز میں 90 اور 46 رنز بنا کر اس کھلاڑی نے اپنے ساتھ ناانصافی کرنے والوں کے چہروں پر سیاہی پھر دی۔
اگرچہ تسلیم عارف ارباب اقتدار میں موجود مخالفین کی آنکھ کانٹا بن کر چبھ رہا تھا، لیکن شائقین کرکٹ اس بات پر خوش تھے کہ پاکستان کو ماجد خان کی جگہ ایک شان دار بیٹسمین مل گیا۔
بھارت سے وطن واپسی پر جب آسٹریلیا کی ٹیم نے پاکستان کا دورہ کیا، تو ٹیم کا مستقل حصہ تصور کیے جانے والے وکٹ کیپر کو ڈراپ کرکے ہردل عزیز وکٹ کیپر، وسیم باری کو ٹیم سے پہلی بار ڈراپ کرکے وکٹ کیپنگ کی ذمے داری بھی تسلیم عارف کے سپرد کردی گئی۔
اس سیریز میں تسلیم عارف نے اپنی صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کیا اور 3 میچوں کی چار اننگز میں ایک مرتبہ ناٹ آوٹ رہتے ہوئے ایک ففٹی اور 210 رنز ناٹ آوٹ کی شان دار اننگز کھیلی۔ بہ حیثیت وکٹ کیپر اوپننگ بیٹسمین تسلیم عارف کی فیصل آباد ٹیسٹ کی 210 رنز ناٹ آوٹ کی اننگز ریکارڈ ساز تھی۔
وہ ٹیسٹ میچ کے پانچوں دن گراونڈ میں موجود رہے، اسی ٹیسٹ میں بہ حیثیت بولر انہوں نے ایک وکٹ بھی حاصل کی۔ تسلیم عارف کی اس کارکردگی نے نہ صرف ٹیم میں ان کی جگہ مستحکم ہوئی، بلکہ شائقین میں ان کی مقبولیت آسمان پر پہنچ گئی۔ تسلیم عارف کی یہ کامیابیاں ان کے مخالف کیمپ کے لئے روز بروز پریشانی کا باعث بن رہی تھیں۔ وہ تسلیم عارف کا راستہ روکنے کے بہانے ڈھونڈنے لگے۔
اسی اثنا میں 1981 میں ویسٹ انڈیز کی ٹیم نے پاکستان کا دورہ کیا۔ ابتدائی دو ٹیسٹ میچوں میں وسیم راجا اور جاوید میانداد کے علاوہ کوئی بیٹسمین قابل ذکر کارکردگی نہ دکھا سکا۔ ادھر بیٹنگ میں ناکامی کے ساتھ ساتھ تسلیم عارف کی وکٹ کیپنگ بھی معیاری نہیں رہی۔
بس، پھر کیا تھا۔ مخالفین کے ہاتھ موقع آگیا اور تیسرے ٹیسٹ میں تسلیم عارف کو ٹیم سے نکال کر وسیم باری شامل کرلیا گیا۔ حالاں کہ کلکتا ٹیسٹ کی طرح اسے بہ حیثیت بیٹسمین ٹیم میں رکھا جاسکتا تھا، لیکن خطرہ یہی تھا کہ کہ ایک بار پھر یہ کارکردگی دکھا کر مخالفت کے راستے بند نا کردے۔ سو بہتر یہ تھا کہ اس کے کیرئیر پر ٹیسٹ کے دروازے بند کردیے جائیں۔
مخالفین اپنے مقصد میں کامیاب تو ہوئے، لیکن تسلیم عارف کی مقبولیت لوگوں کے دلوں سے نہ مٹا سکے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی تسلیم عارف کرکٹ کی ایک خوش گوار یاد بن کر لوگوں کے دلوں میں زندہ ہے اور اس کا راستہ روکنے والے گمنامی کے اندھیروں میں کھو چکے ہیں۔