وسیم اختر، ایک ناکام میئر
میئر کراچی وسیم اختر کو کون نہیں جانتا ؟ یہ ہر وقت آپ کو اختیارات کے نہ ہونے کا رونا روتے ہی نظر آئیں گے۔ ان موصوف سے ایک بار پوچھیں کہ کراچی میں انہوں نے ساڑھے چار برسوں میں کیا کیا ؟تو آپ کو یہ نہیں بتائیں گے کہ انہوں کیا کارنامے انجام دیے بلکہ جناب ایک ہی بات دہرائیں گے کہ مجھے کچھ کرنے ہی نہیں دیا گیا، اختیارات ہی نہیں تھے۔
کبھی یہ مصطفی کمال پر تنقید کرتے نظر آئیں گے ، تو کبھی فاروق ستارکا تمسخر کرتے۔ یہ اس قدر معصوم ہیں کہ کبھی یہ پی ٹی آئی کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں تو اگلے ہی لمحے پی ٹی آئی کو برا بھلا کہتے نظر آتے ہیں اور کبھی ان سے ہی وزارتیں مانگتے ہیں ۔
وسیم اختر اتنے معصوم ہیں کہ جب وہ میئر منتخب ہو ئے تو پریس کانفرنس میں کہا کہ سب کو ساتھ لے کر چلیں گے لیکن یہ موصوف خود ہی جیل چلے گئے۔ یہ تو ہوگیا ان کا تعارف اب کچھ بات کر لیتے ہیں ان کے کارناموں کی ۔
میئر کراچی شہر کے لیے تو کو ئی خاطر خواں کارنامہ انجام نہ دے سکے لیکن اپنی ذاتی خدمت کرنے میں کبھی بھی پیچھے نہیں رہے۔ کبھی ان پر دس ارب کی کرپشن کا الزام لگتا ہے تو کبھی چھوٹی موٹی کرپشن سے دل نہ بھرے تو سیدھا 36 ارب کی کرپشن کے الزامات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
بقول آپ کے حکومت نے آپ کو پابند کیا ہے کہ کسی بھی منصوبے پر دو کروڑ سے زیادہ پیسہ خرچ نہ کیا جائے۔ اسے اگر سچ مان لیا جا ئے تو ایک ارب میں پچاس منصوبے بنتے ہیں اور 36 ارب میں کم و پیش ڈھائی ہزار منصوبے بنتے ہیں۔مئیر صاحب ڈھائی ہزار نہ سہی کوئی ڈھائی منصوبے ہی بتا دیں جس کی مد میں انھوں نے 36 ہزار ارب کا بجٹ لیا تھا۔ میئر صاحب آپ نے کراچی میں کہا ں اور کس منصوبے میں کام کیا یہ بیشک نہ بتائیں لیکن کراچی کے منصوبوں کے لیے لی گئی رقم کہاں خرچ کی گئ وہ ہی بتا دیں۔
آپ نے یہ بھی وعدہ کیا تھا کہ 2019 میں پانچ ارب باسٹھ کروڑ نوے لاکھ روپے کی رقم سے شہر بھر میں 194 نئی اسکیمیں مکمل کریں گے ، لیکن وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو جا ئے ۔ آپ اپنے کیےوعدوں کا ہی پاس رکھ لیں اور کوئی ثبوت پیش کر دیں کہ جن کام کا ذکر آپ نے کیا وہ کام مکمل کیے بھی یا نہیں۔
میئر صاحب ،گزشتہ 3 برس کی کہانی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے ۔بلدیہ عظمیٰ کے ترقیاتی بجٹ سے مجموعی طور پر 36 ارب روپے کہا ں گئے؟ معصوم شہری جواب کے منتظر ہیں۔ موصوف کا کہنا ہے کہ انہوں نے یہ رقم مختلف ترقیاتی کاموں میں خرچ کی۔
ان کاموں کے علاوہ سڑکوں اور پلوں کی مرمت و ازسر نو تعمیرات کے علاوہ تزئین و آرائش کے کے حوالے سے کیے جانے والے کام اور نالوں کی صفائی کے منصوبے بھی شامل ہیں۔ چند چھوٹے چھوٹے اور معصوم سوالات عام شہریوں کے ہیں جن کے جوابات کے وہ منتظر ہیں۔ میئر صاحب، یہ آپ خود حساب دے دیں تو ہی اچھا ہے، کیونکہ عوام جب حساب مانگتی ہے تو وہ تخت نشینوں کو پل بھر میں خاک نشیں بنا دیتی ہے۔
وسیم اختر پر 30سے زا ئد مقدمات ہیں اور وہ ضمانت پر باہر ہیں۔دنیا کے کسی اور ملک میں یہ ہوتے تو ایسا آدمی ایک کونسلر نہیں بن سکتا تھا۔ اس روشنی کے شہر، کراچی کا بیڑا غرق، میئر صاحب اور ان کی جماعت نے ہی کیا ہے۔ تاریخ نے کبھی ایسا مئیر نہیں دیکھا جس کے کنٹرول میں ایک بھنگی تک نہیں۔
کراچی کو تباہ کرنے میں وسیم اختر اور ان کی جماعت کا بھرپور ہاتھ ہے۔ اہلِ کراچی کے حقیقی دشمن یہ لوگ ہی تو ہیں جو پچھلے تیس سالوں سے کراچی پر حکومت کر رہے ہیں اور جب کام کی باری آتی ہے تو اختیارات کی کمی کا راگ الاپنے کے سوا کچھ نہیں کرتے۔