دنیا بھر میں چائلڈ لیبرکی تعداد 160 ملین ہوگئی
دنیا بھر میں چائلڈ لیبرکی تعداد 160 ملین ہوگئی ہے جو گذشتہ چار سالوں میں 8.4 ملین اضافے کو ظاہر کرتی ہے۔ 14 جون کو چائلڈ لیبر کے خلاف عالمی دن سے قبل جاری کی جانے والی رپورٹ میں انتباہ کیا گیا ہے کہ گزشتہ 20 سالوں کے دوران پہلی بار چائلڈ لیبر کے خاتمے کی کوششوں میں پیشرفت تعطل کا شکار ہوئی ہے۔ دنیا میں دو دہائیوں میں پہلی بار چائلڈ لیبر میں اضافہ ہوا ہے اور کورونا بحران کی وجہ سے مزید کروڑوں بچے اس کا شکار ہو سکتے ہیں۔فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن اور اقوام متحدہ کی بچوں کے حوالے سے کام کرنے والی تنظیم یونسیف کی مشترکہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سنہ 2020 کے آغاز میں چائلڈ لیبر کی تعداد 16 کروڑ ہو چکی ہے
جس میں گذشتہ چار سالوں میں آٹھ کروڑ 40 لاکھ بچوں کا اضافہ ہوا ہے۔مختلف رپورٹز کے مطابق 5 سے 17 سال کی عمر کے بچوں کی 2016 کے بعد سے تعداد 6.5 ملین سے بڑھ کر 79 ملین ہوگئی ہے۔ زراعت کے شعبے میں چائلڈ لیبرکی تعداد 70 فیصد(112 ملین)، خدمات میں 20 فیصد (31.4 ملین) اور صنعت میں 10 فیصد (16.5 ملین) ہے۔ 5 سے 11 سال کی عمر کے تقریبا 28 فیصد اور 12 سے 14 سال کی عمر کے 35 فیصد بچے چائلڈ لیبر کے باعث اسکول سے باہر ہیں۔صوبہ سندھ میں 5 سے 14 سال کی عمر کے 21.5 فیصد بچے کام کر رہے ہیں۔ پاکستان میں لگ بھگ 11 ملین بچے گھریلو کام انجام دیتے ہیں اور زراعت میں کام کرتے ہیں۔
دوسرے بچے اینٹوں کی صنعت میں بانڈے مزدور کی حیثیت سے اپنے کنبے کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں۔ پاکستان میں اس قسم کی جبری مشقت کا استعمال اینٹوں ، قالین اور کوئلے کی صنعتوں میں ہوتا ہے۔: پاکستان میں اب بھی بچوں کی لیبر کی بدترین شکل موجود ہے جس میں مضر کام شامل ہیں جو بچوں کی صحت اور ترقی کو نقصان پہنچا سکتے ہیں ،
، پاکستان میں مؤثر کام کے لئے کم سے کم عمر اب بھی بین الاقوامی معیار پر پورا نہیں اترتی۔ تاہم ، خیبر پختونخوا ، پنجاب اور سندھ صوبے کم سے کم عمر کے معیار پر پورا اترتے ہیں ، جو 18 سال سے اوپر ہیں۔ صوبہ پنجاب نے بھی 2019 کے شروع میں ایک قانون نافذ کیا ہے جس میں 15 سال سے کم عمر بچوں کے گھریلو کاموں پر پابندی عائد ہے۔