عالم لوہار، ناقابلِ فراموش گلوکار
لمبے بال، شلوار قمیض، ٹھیٹھ پنجابی لہجہ، دیہاتی ڈیل ڈول، بے ساختہ انداز، ہر دوسری، تیسری بات پر قہقہہ لگاتے ہوئے ساتھی کی ہتھیلی پر زور سے ہتھیلی جمانا، جب ان خصوصیات کا حامل سادہ شخص ’ولایتی‘ ایئرپورٹ پر اترا تو فوری توجہ حاصل کر لی تاہم اصل میلہ تب سجا اور لُٹا جب بھڑکیلا لاچہ کُرتہ پہنے، ہاتھ میں چمٹہ لیے برطانیہ کے شاہی محل پہنچا اور ملکہ الزبتھ ان کی منتظر تھیں۔
تھوڑی دیر میں موسیقی کا پروگرام شروع ہونے والا تھا جو ملکہ کی پچیسویں سالگرہ کی خوشی میں رکھا گیا تھا اور خصوصی طور پر پاکستان سے لوک فنکاروں کو دعوت دی گئی تھی۔
اس پروگرام میں سب سے واضح آواز چمٹہ بجنے کی تھی، ساتھ جب آواز کا تڑکا لگا کہ
’ملکہ تیری سلور جوبلی گھر گھر مناندے نیں۔۔۔۔ گورے کالے مل کے سارے گیت گاندے نیں‘
تو سماں ہی بدل گیا ملکہ سمیت بیشتر لوگ پنجابی نہیں جانتے تھے لیکن محظوظ اس قدر ہوئے کہ تالیاں بجاتے ہوئے ساتھ گاتے رہے، اس فنکار نے جتنی محبت ان پر لٹائی اس سے زیادہ سمیٹ کر واپس پہنچا۔
یہ وہ عظیم فن کار تھا جو لوہا بناتے بناتے سب کے دلوں کی دھڑکن بن گیا حالانکہ لوہار کے بارے میں عام خیال یہی ہے کہ وہ اپنے سخت کام کی وجہ سے لطیف جذبوں سے دور ہوتا ہے لیکن ضروری نہیں کہ ایسا ہی ہو۔
عالم لوہار 1928 کو گجرات کے علاقے آچھ گوچھ میں پیدا ہوئے۔ وہ خاندانی لوہار تھے۔
ان کے ایک ماموں کو گانے کا شوق تھا اور وہ چوپال میں بیٹھ کر دوستوں کو ماہیے وغیرہ سنایا کرتے تھے ایک بار ایسی ایک محفل میں بیٹھنے پر عالم لوہار کے اندر کے فنکار نے بھی انگڑائی لی اور انہوں نے بھی محفلوں میں گانا شروع کر دیا۔
اس وقت دیہات میں میلوں کا عام رواج تھا اوران کے علاوہ تفریح کا ذریعہ نہیں تھا۔ سات آٹھ سال کی ہی عمر میں میلوں میں گانا شروع کیا۔ ان کا گانا گانے کا انداز سب سے مختلف تھا یہی وجہ ہے کہ جلد ہی مشہور ہو گئے۔
انہوں نے نعت خوانی، کافی، ہیر، سیف الملوک، قصے، گیت، جگنی وغیرہ میلوں، عرسوں میں گائے۔ اس وقت دنیا چمٹے کو باورچی خانے کے ایک آلے سے زیادہ کے طور پر نہیں جانتی تھی لیکن جب پتہ چلا کہ یہ تو آلہ موسیقی بھی ہے تو یہ ایک نئے ساز کے طور پر متعارف ہوا۔
انہوں نے میاں محمد بخش، خواجہ فرید، بابا بلھے شاہ، شاہ حسین اور سلطان باہو کے علاوہ لوک داستانیں، جگنی، بولیاں اور ماہیے ایسے انداز میں پیش کیے کہ سننے والے دیوانے ہو گئے۔
شہرت ملتے ہی ہر علاقے سے ان کی ڈیمانڈ سامنے آنے لگی سو وہ ایک گھٹڑی اور چمٹہ اٹھائے زیادہ تر سفرمیں ہوتے۔ ایک میلے سے دوسرے، ایک تھیٹر سے دوسرے پہنچتے رہے۔ پھر ریڈیو، ٹی وی اور فلم سٹوڈیوز کی زینت بھی بنے۔ مزدوروں کی طرح کام کرتے اور چاہنے والوں کو خوش کرتے رہے۔
اپنے ایک ریڈیو انٹرویو، جو آج بھی یوٹیوب پر موجود ہے عالم لوہار کا کہنا تھا کہ ’ہمارے گاؤں کے لوگ لاہور مزدوری کے لیے جایا کرتے تھے۔ انہوں نے کسی موسیقی سے وابستہ شخصیت سے ان کا تذکرہ کیا جنہوں نے میوہ منڈی میں موسیقی کے پروگرام میں مجھے مدعو کر لیا۔ بھرپور پرفارمنس کے بعد جب مجھ سے پوچھا گیا کہ
‘توے پر ریکارڈنگ کروائو گے”
تو فوراً کہا ہاں میں توے بنا لیتا ہوں، پوچھنے والے کا اشارہ گراموفون کے ریکارڈ کی طرف تھا جو توے کے برابر ہی ہوتا تھا۔ انہوں نے پندرہ سال کی عمر میں اپنا پہلا فن ریکارڈ کروایا۔
اس کے بعد ان کا ریڈیو پاکستان کے ساتھ تعارف ہوا اور وہ یوں آگے بڑھے کہ پیچھے مڑ کر نہ دیکھا۔
خدا نے ان کو چھپر پھاڑ کر شہرت، عزت اور دولت دی۔ ہر جگہ ان کا نام گونجنے لگا لیکن ایک خاص قسم کی عاجزی ہمیشہ ان کی شخصیت کا حصہ لئے رہی۔ پنجابی فلم انڈسٹری پر ایسا وقت بھی آیا جب عالم لوہار کے بغیر فلم بن ہی نہیں سکتی تھی۔ پلے بیک سنگر یا مہمان اداکار کے طور ان کا نام فلم کی ضمانت سمجھا جاتا تھا۔
ان دنوں ان کے گانے
"واجاں ماریاں بلایا کئی وار میں”
"بول مٹی دیا باویا”
"موہڈا مار کے ہلا گئی”
"دل والا دکھ نئیں کسے نوں سنائی دا” "دھرتی پنج دریاواں دی”
سمیت بے شمار گانے زبان زد عام ہوئے۔
انہوں نے پنجابی موسیقی میں "جگنی” کو متعارف کروایا جو آج تک موجود ہے اور دوسری زبانوں میں کاپی کی جا رہی ہے۔
عالم لوہار نے قصوں میں ’مرزا صاحبہ، ہیر رانجھا، سسی پنوں، پرن بھگت، شاہ نامہ کربلا وغیرہ کے علاوہ عارفانہ کلام بھی گایا اور نعتوں کے علاوہ قصہ یوسف اور دوسرے تاریخی واقعات کو ترنم کے ساتھ پڑھا جس کو بہت پسند کیا گیا۔
ان کے صاحب زادے عارف لوہار بھی ایک جانے مانے گلوکار ہیں۔ وہ بچپن میں والد کے ساتھ مختلف پروگراموں میں جاتے رہے۔
انڈین وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو بھی ان کے مداح تھے اور ان کو خصوصی دعوت پر بلا کر براہ راست سنا اور خوب سراہا تھا۔ صدر ایوب خان بھی عالم لوہار کے مداح تھے انہوں نے ان کو "شیر پنجاب” کا خطاب دیا تھا۔
ہنستی گاتی زندگی کے بھرپور ایام میں تین جولائی کا وہ دن اچانک شامل ہو گیا جب 1979 میں مانگا منڈی کے قریب ایک ٹریفک حادثے میں جان سے گزر گئے۔ بعد از وفات ان کو حکومت پاکستان کی جانب سے تمغہ حسن کارکردگی دیا گیا۔ آج ان کی 42 ویں برسی ہے۔