لاہور: عدالت عظمیٰ نے وزیراعلیٰ پنجاب کے معاملے پر پرویز الٰہی کی درخواست پر اپنے حکم میں کہا ہے کہ حمزہ شہباز پیر تک بطور ٹرسٹی وزیراعلیٰ کام کریں گے۔
سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے وزیراعلیٰ پنجاب کے معاملے پر پرویز الٰہی کی درخواست پر سماعت کی۔
عدالت نے ڈپٹی اسپیکر کے وکیل عرفان قادر ایڈووکیٹ سے استفسار کیا کہ آپ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کا دفاع کس بنیاد پر کررہے ہیں؟ جس پر انہوں نے کہا کہ ہم الیکشن کمیشن کے فیصلے کی بنیاد پر دفاع کررہے ہیں، عدالت عظمیٰ نے فیصلے میں کہا تھا کہ منحرف اراکین کے ووٹ شمار نہیں ہوں گے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم 17 مئی کے فیصلے پر نظرثانی نہیں کریں گے، ہمارے پاس 17 مئی والا آرڈر ابھی یہاں چیلنج نہیں ہوا، ڈپٹی اسپیکر نے سپریم کورٹ آرڈر کی آڑ لے کر ووٹ شمار نہیں کیے، وہ حصہ بتائیں کہاں ہے؟ آپ بڑے سینئر وکیل ہیں آپ کو پتا ہوگا اسپیکر نے فیصلہ کہاں سے اخذ کیا؟
عرفان قادر ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ میں صرف 2گھنٹے پرانا ہوں، ابھی عدالت کو تمام تفصیلات سےآگاہ کرتا ہوں، میں عدالت کی معاونت کرتا ہوں پہلے کچھ حقائق بتا دوں۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ ہم بھی 2 گھنٹے پرانے ہی ہیں، آپ ہمیں آرڈر کا متعلقہ حصہ پڑھ کر سنائیں۔
اس موقع پر جسٹس اعجاز الاحسن نے خود ہی ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ پڑھ دی اور کہا کہ ڈپٹی اسپیکر نے فیصلے کے جس پیرا نمبر 3 کا حوالہ دیا وہ پڑھ دیں۔ عرفان قادرایڈووکیٹ نے کہا کہ آرٹیکل 3 ون اے کے تحت منحرف اراکین کے ووٹ شمار نہیں ہوں گے، یہ عدالت کی تحقیق تھی نا؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ یہ عدالت کا فیصلہ ہے، عدالت کی تحقیق نہیں ہے۔
عرفان قادر ایڈووکیٹ نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں ووٹ شمار نہ کرنا درست سمجھا، ڈپٹی اسپیکر کے پاس 2 چوائسز تھیں، یا تو کہتے ووٹ شمار نہیں ہوں گے یا ووٹ شمار ہوگا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سپریم کورٹ نے کہا تھا، پارلیمانی پارٹی کی ہدایت کے خلاف ووٹ شمار نہیں ہوگا، ڈپٹی اسپیکر نے پیرا 3 پر انحصار کرکے کیا سمجھا ہے؟ عرفان قادر ایڈووکیٹ نے جواب دیا کہ ڈپٹی اسپیکر سمجھے پارٹی سربراہ ہی پارلیمانی پارٹی کی سربراہی بھی کرتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اگر بالفرض ڈپٹی اسپیکر غلط سمجھے تو نتائج کیا ہوں گے؟ عرفان قادر ایڈووکیٹ نے کہا کہ میں آپ سے گھبراتا بڑا ہوں ایسا تسلیم کرنے والا بیان نہیں دے سکتا، بادی النظر میں بدقسمتی، خوش قسمتی سے میری رائے بھی ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کے ساتھ ہے۔
عدالت نے کہا کہ آپ سطحی طور پر بتائیں ڈپٹی اسپیکر نے فیصلہ غلط سمجھا تو آگے کیا ہوگا؟ عرفان قادر ایڈووکیٹ نے کہا کہ حقائق پر کوئی تنازع نہیں، ابھی مجھے ڈپٹی اسپیکر کی طرف سے جواب بھی جمع کرانا ہے، اگر عدالت کہے تو ڈپٹی اسپیکر بامقصد بیان عدالت میں پیش کردیں گے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اسمبلی سے کوئی ریکارڈ پیش ہوا ہے؟ اس پرعرفان قادر نے کہا کہ میرے علم میں نہیں کہ ریکارڈ آیا ہے کہ نہیں، آپ کو ریکارڈ سے کیا مخصوص چیز دیکھنی ہے؟
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہم دیکھنا چاہ رہے ہیں اسپیکر کے ہاتھ میں چٹھی تھی وہ دکھائیں، بادی النظر میں حمزہ شہباز کا وزارت اعلیٰ کا عہدہ گہرے خطرے میں ہے۔
وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو کمرہ عدالت وکلاء اور دیگر افراد سے کھچا کھچ بھر گیا، جس کے باعث دھکم پیل سے دروازے کے شیشے ٹوٹ گئے، بعد ازاں چیف جسٹس نے ویڈیو لنک کے ذریعے سماعت شروع کی۔
اس سے قبل سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر کو ذاتی طور پر سننا چاہتے ہیں، وہ اپنے ساتھ الیکشن کا تمام ریکارڈ بھی لے کر آئیں، ڈپٹی اسپیکر آکر اپنے مؤقف کا دفاع کریں اور بتائیں۔
جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ پریشان نہ ہوں یہ صرف ایک قانونی سوال ہے، یاد رکھیں ایسے معاملات غیر تجربہ کاری سے پیش آتے ہیں، یہ معاملہ تشریح سے زیادہ سمجھنے کا ہے۔
عدالت عظمیٰ نے ڈپٹی اسپیکر دوست مزاری کو 2 بجے طلب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز کو بھی نوٹس جاری کردیا اور کیس کی مزید سماعت بھی 2 بجے تک ملتوی کردی۔
دھیان رہے کہ گزشتہ روز پنجاب اسمبلی میں وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے لیے ووٹنگ ہوئی تھی۔ ووٹنگ کے نتیجے کے مطابق پی ٹی آئی کے امیدوار پرویز الہیٰ نے 186 ووٹ لیے جبکہ مسلم لیگ ن کے حمزہ شہباز نے 179 ووٹ لیے تھے۔ ق لیگ کے 10 ارکان کے ووٹ ڈپٹی اسپیکر نے مسترد کردیے تھے۔