وائس آف سندھ

وائس آف سندھ: روشن مستقبل کا عزم

(ایک علمی، فکری اور سماجی پلیٹ فورم)
’’وائس آف سندھ‘‘ نوجواناں پاکستان کے لیے ایک ایسا پلیٹ فورم ہے، جو نظریاتی اور فکری تربیت کے ساتھ ساتھ اُنھیں سماجی طور پر فعال بنا کر پاکستانی معاشرے کی ترقی میں کردار ادا کرنے کی تحریک دیتا ہے۔
’’وائس آف سندھ‘‘ نئی نسل کو نظریہ پاکستان کا شعور اور بزرگوں کی قربانی کا شعور عطا کرتے ہوئے اِس راہ پر پیش قدمی کا حوصلہ دیتا ہے، جو پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کی سمت جاتی ہے۔
اس پلیٹ فورم کا ایک مقصد دنیا کو سندھ کی روشن تاریخ، اس کے زرخیز کلچر اور اس کے ورثے سے روشناس کرنا ہے، ساتھ ہی یہ پلیٹ فورم ایسے منصوبے شروع کرنے کے لیے پرعزم ہے، جو سندھ کی نئی نسل کو اس کے درخشاں ماضی سے باخبر بناتے ہوئے انھیں وہ اعتماد بخشے، جو عملی زندگی میں اُن کے لیے معاون ثابت ہو۔
اس پلیٹ فورم کا ارادہ ایک ایسے مستقبل کی سمت پیش قدمی ہے، جو پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کا ضامن ہوا۔ ساتھ ہی دنیا کے سامنے اس زرخیز خطے کی قابل تقلید شبیہ پیش کرسکے۔
یہ پلیٹ فورم روشن مستقبل کا عزم ہے۔ ایک نوید ہے کہ جذبہ حب الوطنی سے سرشار یہ قوم عالمی دنیا میں اپنا کردار ادا کرنے کے
لیے علمی اور فکری طور پرتیار ہے اورعزم و ارادے کے ساتھ مستقبل کی تشکیل کا ارادہ رکھتی ہے۔

٭سندھ کی ثقافت اور تاریخی ورثہ

کسی زمانے میں انڈس تہذیب دنیا کی سب سے بڑی تہذیبی وحدت تصور کی جاتی تھی، جس کا دائرہ مصری، سومیری اور ایرانی تہذیبوں سے وسیع تھا۔ کوہ ہمالیہ سے کاٹھیاوار اور کوئٹہ سے راج پوتانہ تک پھیلی اس تہذیب نے صدیوں قبل اُس خطۂ زمین کو ایک لڑی میں پروا رکھا تھا، جو آج پاکستان کہلاتا ہے۔ یہ تہذیب ایک ہزار سال تک پوری شان سے قائم رہی اور اِس خطے کے تنوع کو محبت، اخوت اور بھائی چارے کے رنگ میں رنگ دیا۔ تصوف، محبت، لوک کتھائیں اور مہمان نوازی اِس زرخیز خطے کے دل پذیر اوصاف ہیں۔ ان ہی کا چوکھا رنگ اجرک اور سندھی ٹوپی سے جھلکتا ہے۔
ہڑپہ اور موئن جودڑو انڈس تہذیب کے نمایندہ شہر تھے، ایک راوی کنارے عظیم تہذیبی ورثے کی پرورش کر رہا تھا، دوسرا دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ اس شہر کا نقش تعمیر کر رہا تھا، جو مستقبل میں عالمی ورثہ قرار پانے والا تھا۔
شاہ لطیف اور سچل سرمست کا مزار، لعل شبہاز قلندر اور عبداللہ شاہ غازی کی درگاہیں اِس خطے کے عظیم صوفیانہ ورثے کی فقط ایک جھلک ہیں۔ اِسی طرح جام شورو میں واقع رانی کوٹ کا قلعہ، ٹھٹھہ کی شاہ جہاں مسجد، مکلی قبرستان، چوکھنڈی قبرستان اور مزار قائد اس کے فن تعمیر کے ارتقا کی درخشاں کہانی بیان کرتے ہیں۔
سندھی زبان بھی اِس کلچر کا ایک نمایاں وصف ہے۔ محققین کے نزدیک اس کا ماخذ آریائی زبان ہے۔ مغربی ماہرین لسانیت وادی سندھ سے برآمد ہونے والی مہروں کو پڑھنے کے بعد اِسے دراوڑی زبانوں کی ایک شاخ قرار دیتے ہیں۔ سندھ میں اسلام کی آمد کے بعد یہ زبان عربی اور ترکی کے رنگوں سے متاثر ہوئی۔ انگریزوں کی آمد نے بھی اس پر گہرے نقوش چھوڑے۔ اپنے قدیم اور زرخیز ماضی کے باعث اس کی جڑیں گہری، رسم الخط پختہ اور ادب توانا ہے۔ سندھی زبان کے مختلف لہجے رائج ہیں، جن میں سریلی، وچولی، لاڑی، تھری، کچھی اور کوہستانی لہجے نمایاں ہیں۔
ابتدا میں یہ مارواڑی رسم الخط میں لکھی جاتی تھی۔ 712 میں مسلمانوں کی آمد کے بعد اسے عربی رسم الخط میں لکھنے کا چلن پڑا، جو آگے جا کر پختہ ہوگیا۔ اب یہ رسم الخط 52 الفاظ پر مشتمل ہے۔ دھیرے دھیرے سندھی ادب کے بھی خدوخال واضح ہونے لگے۔ ایک عرب حاکم، عبداللہ بن عمر نے 886 میں منصورہ کے عالم سے قرآن پاک کا سندھی میں ترجمہ کروایا۔ عربوں کے بعد سومرہ دور آیا، جہاں سندھی زبان اور ثقافت خوب پھلی پھولی۔ تمثیلی قصے سوہنی ماہیوال، سسی پنوں، عمر ماروی اسی دور سے تعلق رکھتے ہیں۔
سندھی زبان و ادب کی کہانی کئی دہائیوں پر محیط ہے، جسے کئی ابواب میں تقسیم کیا جاسکتا ہے اور ہر باب اپنے اندر ایک کہانی رکھتا ہے۔