ہر مال ملے گا دو آنے

ثناء غوری

 ہر مال ملے گا دو آنے کی صدا پاکستان کے ایوانِ بالا میں کچھ جچتی نہیں۔ ظاہر ہے جناب سوال ہے اس بات کا کہ ایوانِ بالا میں ہوگی اب کس کی حکم رانی تو بولی تو ذرا بڑی لگنی چاہیے۔ کیا کہا کتنی بولی؟ تو جناب یہ بولی شروع ہوتی ہے دو کروڑ سے بتیس کروڑ تک۔ کون کس نے کسے ووٹ دیا  یہ تو رہا ایک مسئلہ لیکن اگر کوئی غیرحاضر ہو کر اپنے ووٹ دینے کے حق سے دستبردار ہوجائے تو اسے بھی پیسہ ملتا ہے اور اگر کوئی ”غلطی سے“ ووٹ ضائع کردے تو وہ بھی مالامال ہوجاتا ہے۔ جب تک یہ کالم شائع ہوگا سینیٹ الیکشن کے نتائج سامنے آچکے ہوں گے، کون جیتا کون ہارا کی بحث ایک طرف، سوال اس بگاڑ کا ہے جو ہمیں پاکستان کے ایوانِ بالا کے الیکشن میں نظر آتا ہے۔

 یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ دو ہزار ایک سے اب تک سینیٹ الیکشن میں  سودے چل رہے ہیں اور حالیہ الیکشن کے دوران بھی منڈی لگی رہی اور سودے ہوتے رہے۔  الیکشن کمیشن جتنے بھی ضابطہ اخلاق جاری کرلے کرنا ہمیں وہی ہے، جو ہم کرتے آرہے ہیں۔ ہارس ٹریڈنگ ہماری سیاست پر بدنما داغ ہے، تمام اخلاقیات کو پسِ پشت ڈال کر ہمارے سیاست داں جن کے ہاتھوں میں اس قوم کا مستقبل ہے، اس گھناؤنے فعل میں ملوث نظر آتے ہیں۔ ایک دوسرے پرالزامات لگانا تو ہماری سیاست کا چلن ہے ہی، سینیٹ الیکشن کے دوران تو بات الزامات اسے بڑھ کر مخالف جماعت کے ارکان اسمبلی کو ہتھیانے اور اپنے ای پی ایز کو چھپانے تک پہنچ جاتی ہے۔

یہی کچھ اس الیکشن کے دوران ہوتا رہا۔ خاص طور پر سندھ اسمبلی میں ارکان پر ”قبضے“ کے لیے جو ہاتھاپائی ہوئی اس نے ہماری سیاست اور سینیٹ کے انتخابات کو مزید داغدار کردیا۔
یہ ساری صورت حال انتہائی افسوس ناک ہے اور میرا قلم یہ لکھتے ہوئے شرمندہ ہے ہم بحیثیت قوم اخلاقی طور پر کس حد تک گر چکے ہیں کہ اب ایسی صورت حال ہمیں اس ملک کے مقدس ترین ایوان، ایوانِ بالا میں ہونے والے الیکشن میں نظر آئی۔ سینیٹ الیکشن کم ہمیں یہ خریدوفروخت کا بازار زیادہ نظر آتا ہے۔ دولت کی چمک اپنا کام کر دکھاتی ہے اور ہمدردیاں خریدی جاتی ہیں۔ سوال یہ کہ آخر پارٹی ٹکٹ کا معیار ہے کیا۔ کس اصول کے تحت سینیٹ کے الیکشن کا ٹکٹ دیا جاتا ہے۔ یہ سب پہلی بار نہیں ہوا۔ سینیٹ کے پچھلے الیکشن میں بھی یہی کچھ ہوا تھا اور سینیٹ کے چیئرمین کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد آنے پر بھی یہی تماشا لگا تھا، مگر اس بار ہونے والے ایوان بالا کے انتخابات میں ڈرامے کا عنصر کچھ زیادہ ہی تھا۔

سب سے پہلے ویڈیوز کی بات کرتے ہیں۔  اس سلسلے کی پہلی ویڈیو سینیٹ کے گذشتہ انتخابات میں ہونے والی لین دین کا نظارہ کراتی سامنے آئی، جس کے ساتھ یہ سوال بھی اٹھ کھڑا ہوا کہ اس وڈیو کو سامنے لانے میں اتنی تاخیر کیوں کی گئی۔ اس کے بعد جب حکومت نے ایوان بالا کے الیکشن کے لیے  خفیہ رائے دہی کا آئینی طریقہ ترک کرکے شو آف ہینڈز کے ذریعے سینیٹروں کو منتخب کرانے کا ارادہ ظاہر کیا اور اس طریقے کو آرڈیننس کے ذریعے قانون بنانے کی کوشش کی تو نہ صرف حزب اختلاف کی جماعتیں چیخ اٹھیں اور انہوں نے یہ طریقہ  مسترد کردیا بلکہ الیکشن کمیشن نے بھی اس طریقے کو آئین کے خلاف قرار دے دیا۔ آخرکار عدالت عظمیٰ کے حکم نے حکومت کو اس حوالے سے جاری کیا گیا صدارتی آرڈیننس  واپس لینے پر مجبور کردیا۔
ایک طرف الیکشن کی گہماگہمی تھی، سیاست  دانوں کے ایک دوسرے سے رابطے جاری تھے اور دعووں اور الزامات  کی بوچھار ہورہی تھی، دوسری طرف وڈیوز آنے کا سلسلہ بھی جاری تھا۔ کسی وڈیو میں کوئی رکن اسمبلی اپنے اغوا ہونے کی تردید کرتا نظر آتا تو کسی میں سودے بازی کے مناظر سامنے آکر سیاست کی سیاہی بڑھاتے  دکھائی دیتے۔ حزب اختلاف کے امیدوار سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے صاحب زادے کی وڈیو میں ان ہی میں سے ایک تھی جس میں وہ ووٹ ضائع کرنے کا طریقہ سمجھاتے نظر آرہے ہیں۔  اگر کسی کے دل ودماغ میں سینیٹ کے الیکشن  میں پیسہ چلنے کے بارے میں کوئی شک وشبہہ بھی تھی تو ان وڈیوز نے اسے دور کرکے حقیقت پوری طرح واضح کردی۔
جو کچھ سندھ اسمبلی میں ہوا، جس طرح پاکستان تحریک انصاف کے کچھ ارکان کے حصول کے لیے مارپیٹ اور گالیوں کا تبادلہ ہوا وہ بھی یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ ہمارے ملک کی سیاست گراوٹ کے کس مقام پر پہنچ چکی ہے۔
اس صورت حال نے ایک مرتبہ پھر یہ بتادیا کہ سیاست پیسے کا کھیل ہے، جس میں اس ملک کے غریب اور متوسط طبقے کے لوگوں کی کوئی گنجائش نہیں۔ پینتیس پینتیس کروڑ روپے کی بولیاں لگنے سے یہ حقیقت بھی سامنے آگئی کہ کرپشن کا پیسہ ہماری سیاست میں خون بن کر گردش کر رہا ہے۔ ظاہر ہے جو لوگ  کروڑوں اربوں روپے خرچ کرکے سینیٹر بنتے یا کسی کو سینیٹ میں بھجواتے ہیں وہ یہ رقم ضائع نہیں جانے دیتے  بلکہ ملک کے خزانے اور اس قوم سے سود سمیت پوری وصولی کرتے ہیں۔ دوسری طرف ووٹ بیچنے والے ارکان وہ ہوتے ہیں جنہیں سیاسی جماعت اس دعوے کے ساتھ الیکشن لڑواتی ہیں کہ وہ سچے، دیانت دار اور عوام کے ہمدرد ہیں، لیکن سینیٹ کے الیکشن کا موسم آتے ہی سیاسی جماعتوں کی قیادتیں اپنے  پیش کیے جانے والے ان سچے اور دیانت دار  نمائندوں پر اعتماد کرنے کے لیے  تیار نہیں ہوتیں اور انھیں سنبھال کر ہوٹلوں میں رکھ دیا جاتا ہے۔

میں سوچ رہی ہوں کہ یہ ووٹ اور ضمیر بیچنے والے ارکان منتخب نمائندے کی حیثیت سے اور حکومتی ذمے داریاں سنبھال کر مال کمانے کے لیے کیا کچھ نہ کرجاتے ہوں گے۔
جب تک سیاست کو کمائی کا ذریعہ سمجھنے کا چلن نہیں بدلتا تب تک ہمارے ملک میں جمہوریت عوام کے لیے خوشحالی اور ترقی لانے سے  معذور رہے گی اور عام آدمی اس کی طرف حیرت سے دیکھ کر پوچھتا رہے گا کیا یہی جمہوریت ہے؟؟؟

Electionpakistan senate electionSenatesenate election 2021