نہ بھٹو کو پھانسی ہوتی نہ جنرل ضیاء کا حادثہ ہوتا

پاکستان کے سابق آرمی چیف جنرل مرزا اسلم بیگ کی سوانح حیات “ اقتدار کی مجبوریاں “ میں پاکستان کے سیاسی اور عسکری حالات پر اہم انکشافات

بھٹو کو پھانسی ہوتی نہ جنرل ضیا کا حادثہ ہوتا نہ جنرل مشرف کی حکومت ہوتی نہ بے نظیر قتل ہوتی
عاجز جمالی

پاکستانی فوج کے سابق سربراہ جنرل اسلم بیگ ان فوجی سربراہان میں شامل ہیں جن کو بے نظیر بھٹو کی جمہوری حکومت نے “تمغہ جمہوریت “ سے نوازا تھا۔ وہ 17 اگست 1988 کے اس فضائی حادثے کے نتیجے میں پاک فوج کے چیف بنے جس حادثے میں فوج کے سربراہ جنرل ضیا الحق سمیت اہم عسکری قیادت امریکی سفیر سمیت اہم افسران بیک وقت فضا میں ہی شکار اجل بن گئے۔ اس حادثے کے بعد جنرل اسلم بیگ نے اسی رات چیئرمین سینیٹ غلام اسحاق خان کو بلا کر اقتدار اس کے حوالے کیا تھا اور تین ماہ میں انتخابات کرانے کا مشورہ دیا تھا۔
حال ہی میں پاک فوج کے سابق سربراہ ریٹائرڈ جنرل مرزا اسلم بیگ کی سوانح حیات پر مشتمل کتاب “ اقتدار کی مجبوریاں “ شائع ہوئی ہے۔ ساڑھے تین سو صفحات پر مشتمل اس کتاب کو آئی ایس پی آر کراچی کے سابق سربراہ اور کئی عسکری کتابوں کے مصنف کرنل ریٹائرڈ اشفاق حسین نے ترتیب دیا ہے۔ اور کرنل اشفاق حسین نے اس کتاب کے متعلق لکھا ہے کہ “ سب سے پہلے جنرل مرزا اسلم بیگ کا انتخاب اس لئے کیا ہے کہ ان سے پہلے پاک فوج کے جتنے بھی سربراہ رہے وہ دنیائے فانی سے کوچ کر چکے ہیں۔ جنرل اسلم بیگ ماشاہ اللہ نہ صرف حیات ہیں بلکہ وہ پاک فوج کے پہلے سربراہ ہیں جن کی تربیت پاکستان ملٹری اکیڈمی میں ہوئی۔ ان سے پہلے کے سپہ سالار یا تو برطانیہ کی رائل ملٹری اکیڈمی سینڈ ہر سِٹ کے تربیت یافتہ تھے یا ان اداروں کے جو برطانیہ نے برصغیر ہند میں قائم کیئے”

جنرل مرزا اسلم بیگ نے اپنی کتاب “ اقتدار کی مجبوریاں “ میں لکھتے ہیں کتاب کا نام بھی جنرل ضیا کے اس جملے سے لیا گیا ہے جب ان کو میں نے اور جنرل حمید گل نے عام انتخابات کرانے کا مشورہ دیا تو جنرل ضیا کہنے لگے “ آپ کی بات درست ہے لیکن اقتدار کی اپنی مجبوریاں ہیں”۰ جنرل اسلم بیگ نے لکھا ہے کہ ہمارے حکمران نے اقتدار کی مجبوریوں کے سبب اس قدر بے بس ہوجاتے ہیں کہ قومی غیرت تک بھی دائو پر لگا دیتے ہیں۔ جنرل بیگ لکھتے ہیں کہ “ جنرل محمد ایوب خان کی مجبوری تھی کہ انہوں نے اقتدار جنرل یحی کے حوالے کردیا ، جنرل یحی کی مجبوری تھی کہ وہ 3 مارچ 1971 کو ڈھاکہ میں قومی اسمبلی کے اجلاس کا اعلان کرکے اپنے وعدے سے منحرف ہوگئے۔ جنرل ضیاۂ الحق کی مجبوری تھی کہ انہوں نے اپنے وعدے کے خلاف بھٹو کے پروانہ موت پر دستخط کردیے، اسی طرح ان کی مجبوری تھی کہ ہماری سفارشات کے باوجود انہوں نے اقتدار عوامی نمائندو کو منتقل نہیں کیا۔ جنرل پرویز مشرف کی مجبوری تھی کہ وہ غیروں کے ساتھ مل کر افغانستان کے خلاف جنگ میں شامل ہوگئے۔ جنرل اسلم بیگ آگے لکھتے ہیں کہ کور کمانڈرز کی میٹنگ میں انہوں نے ( جنرل اسلم بیگ ) نے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے کی مخالفت کی تھی۔ وہ لکھتے ہیں “ 1978 میں میجر جنرل پروموٹ ہوا اور مجھے 14 ڈویژن کی کمانڈ ملی جو ان دنوں اوکاڑہ میں تعینات تھا اس کی کمان ملتے ہی میں اعلی عسکری قیادت کا حصہ بن گیا۔ جنرل ضیا کی حکومت تھی اور وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کا مقدمہ آخری مراحل میں تھا اور 1979 میں سپریم کورٹ نے بھٹو کو پھانسی کا فیصلہ سنا دیا تھا۔ جنرل ضیاۂ الحق نے آفیسروں اور جوانوں کا رد عمل معلوم کرنے کے لئے کور کمانڈروں کو جائزہ لینے کو کہا۔ ہمارے کور کمانڈر نے سینئر افسران کو بلایا اور ان کا ذہن معلوم کرنے کے لئے بہت سارے سوالات پوچھے۔ سب ہی نے کہا کہ بھٹو کو پھانسی دینے سے تھوڑا بڑا رد عمل تو ہوگا لیکن اس کو سنبھالا جا سکتا ہے میں سب کی باتیں سنتا رہا اور بلا آخر کور کمانڈر کی اجازت سے اپنی رائے کا اظہار کیا “۔ جنرل بیگ نے اپنی رائے کا جو اظہار کیا تھا وہ اس طرح تھا “ بھٹو کو پھانسی دینا بہت غلط فیصلہ ہوگا اس کے سنگین نتائج ہوں گے ایسی پیچیدگیاں پیدا ہوں گی جن کو سنبھالنا مشکل ہوگا۔ اس عمل سے پنجاب اور سندھ کے لوگوں کے درمیاں نفرتیں بڑھیں گی بہتر ہوگا کہ بھٹو کو جلا وطن کردیا جائے، فلسطین کے یاسر عرفات سعودی عرب کے شاہ فیصل لبیا کے کرنل قذافی اور متحدہ عمارات کے حکمران ان کی ذمے داری لینے کو تیار ہیں بھٹو ایک اچھے اسٹیٹس مین اور ایک بڑی جماعت کے مقبول لیڈر ہیں ہمیں کل ان کی ضرورت پڑے گی۔ ہمارے جوانوں اور افسروں کا کیا رد عمل ہوگا اس کی ضمانت نہیں آپ نے دیکھا ہے کہ تھوڑا عرصہ پہلے اسی لاہور میں تین برگیڈیئرز اور ان کی کمان نے احتجاجیوں پر گولی چلانے سے انکار کیا تھا کل اگر احتجاج ہوتا ہے تو بہت شدید ہوگا میرے ٹروپس کا کیا رد عمل ہوگا میں ذمے داری کیسے لے سکتا ہوں “ ؟

میری باتوں پر کور کمانڈر اس قدر ناراض ہوگئے کہ کانفرنس ختم کردی اور اپنے چیف آف اسٹاف برگیڈیئر حمید گل کو بلایا اور حکم دیا کہ فوری مجھے چیف سے ملائو میں ایسے آفیسر کو اپنی فارمیشن میں نہیں رکھ سکتا۔ برگیڈیئر حمید گل نے کہا کہ سر اگر اجازت ہو تو میں رپورٹ تیار کر لوں جو چیف کو بھیج دی جائے تاکہ وہ خود فیصلہ کریں فوری کوئی رد عمل دینا مناسب نہ ہوگا۔ کور کمانڈر نے بات مان لی اور چیف کو رپورٹ بھیج دی گئی مگر جنرل ضیا الحق کی جانب سے کوئی رد عمل نہیں آیا لیکن شان کریمی دیکھیں کہ چند ماہ بعد مجھے جی ایچ کیو میں چیف آف جنرل اسٹاف تعینات کیا گیا میں نے حق اور اصول کی بنیاد پر بھٹو کو پھانسی دینے کے فیصلے سے اختلاف کیا تھا کیونکہ اگر بھٹو کو پھانسی نہ دی گئی ہوتی تو وہ تمام سیاسی ابتری جو دیکھنے میں آئی وہ نہ ہوتی مثال نہ جنرل ضیا کا حادثہ ہوتا نہ جنرل مشرف کی حکومت ہوتی اور نہ بے نظیر کا قتل ہوتا۔ مجھے اختلاف رائے پر مزید اطمینان ہوا جب میں نے ایک سفارت کار جناب ایس ایم قریشی کا ایک مضمون پڑھا۔ وہ لکھتے ہیں “ بھٹو کو پھانسی دئے جانے کے دو سال بعد مجھے یاسر عرفات سے معاملات سلجھانے کے لئے بھیجا گیا وہ بھٹو کو پھانسی دئے جانے پر سخت ناراض تھے۔ میں ان سے ملنے گیا تو انہوں نے بتایا کہ جنرل ضیا نے مسجدالحرام میں بیٹھ کر شاہ خالد کی موجودگی میں وعدہ کیا تھا کہ بھٹو کو پھانسی نہیں دیں گے انہوں نے اپنے وعدے کا پاس نہیں کیا “
انہی دنوں میں ہم ڈویژن کا ریزنگ ڈے منانے کی تیاریوں میں مصروف تھے اور جنرل ضیا نے اس تقریب میں شمولیت پر رضا مندی کا اظہار کیا تھا لیکن بعد میں کہلوایا کہ وہ نہیں آ رہے۔ دو دن بعد بھٹو کو پھانسی دیدی گئی میں نے ریزنگ ڈے کے حوالے سے ہونے والی تقریبات منسوخ کردیں صرف بڑا کھانا ہوا تھا جس کا ماحول بہت افسردہ تھا جو میں آج تک نہیں بھول سکا۔

منتظر تھا کہ اب جنرل ضیا میرے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں اسی انتظار میں چھہ ماہ گذر گئے اور میرے تعجب کی انتہا نہیں رہی جب میری پوسٹنگ جنرل ہیڈ کوارٹر میں چیف آف جنرل اسٹاف کے عہدے پر ہوئی یہ میری اور کئی لوگوں کے لئے باعث حیرت تھی شاید کچھ لوگ اس سے اختلاف کریں لیکن یہ حقیقت ہے کہ جنرل ضیا نپولین جیسی فہم و فراست کے مالک تھے جو خود پر تنقید کرنے والوں کو ساتھ رکھتا تھا۔
سابق چیف آف آرمی جنرل مرزا اسلم بیگ چونکہ 17 اگست 1988 کے حادثے کے بعد پاک فوج کے سربراہ بن گئے اور 1988 کے عام انتخابات کرانے کا سہرا بھی جنرل اسلم بیگ کے سر جاتا ہے اس لئے 17 اگست کا واقعہ ان کی زندگی کا اہم تاریخی واقعہ ہے اس حوالے سے اپنی سوانح حیات میں فوج کے اعلی سلسلہ اختیارات کے موضوع سے کتاب میں ایک مفصل باب ہے۔ میں اس حادثے کے متعلق اور اس کے بعد ہونے والے سیاسی حالات پر مبنی کتاب کے کچھ ٹکڑے پڑھنے والوں کی دلچسپی کے لئے یہاں پر بیان کروں گا۔

17اگست 1988

میں وائیس چیف آف آرمی اسٹاف کے عہدے پر تعینات تھا ہم نے چین کی مدد سے الخالد ٹینک تیار کر لیا تھا اور اس دن ہم امریکی ٹینک ایم ون اے ون ابراہم سے الخالد کا امریکی ٹینک کے ساتھ ٹیسٹ کر رہے تھے الخالد اور امریکی ٹینک ملتان سے بہاول پور پہنچا دئے گئے تھے جہاں ٹامے والی فیلڈ فائرنگ رینج پر ٹیسٹ ہونے تھے۔ جی ایچ کیو سے بہاول پور جانے کے لئے جی ایچ کیو نے اہم شخصیات اور متعلقہ افسران کی دو فہرستیں تیار کیں۔ ایک جنرل ضیا کا گروپ تھا دوسرا چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی جنرل اختر عبدالرحمان تھا دوسرے گروپ نے تین دن بعد ٹرائل دیکھنا تھا 17 اگست کو پہلا ٹرائل تھا اس سے ایک دن پہلے جنرل اختر عبدالرحمان مجھے گالف کورس پر ملے اور شکایت کی کہ انہیں پہلے گروپ میں کیوں نہیں رکھا؟ میں نے کہا کہ اصول کے تحت سب سینئر افسران ایک جہاز میں سفر نہیں کرتے وہ خاموش ہوگئے۔ سترہ اگست کو جنرل ضیاۂ الحق تقریباً گیارہ بجے اپنے قافلے کے ساتھ سی ون تھرٹی سے بہاول پور پہنچے ان کے پہنچنے سے پہلے میں اپنے جہاز میں ان کے استقبال کے لئے بہاول پور پہنچ گیا تھا جب وہ آئے تو ان کے ساتھ جنرل اختر عبدالرحمان۔ امریکی سفیر۔ ان کے ملٹری سیکریٹری اور دیگر متعلقہ افسران بھی تھے ایوان صدر سے یہ نام شامل کیئے گئے تھے۔ میں نے اور کور کمانڈر لیفٹیننٹ محمد شفیق نے ان کا استقبال کیا وہیں ایئرپورٹ کے لائونج ہر فریش اپ ہوئے اور دو ہیلی کاپٹروں میں ٹامے والی رینج کی طرف روانہ ہوئے۔ ٹرائل ٹیم کے سربراہ میجر جنرل محمود درانی اپنے ساتھیوں کے ہمراہ وہاں موجود تھے۔ ٹرائل شروع ہوا جو تقریباً ایک گھنٹے تک جاری رہا الخالد ٹینک تمام ٹیسٹوں میں کامیاب ہوا امریکی ٹینک صرف چند ایک ٹیسٹ میں کامیاب ہوا وہاں سے تقریباً ڈیڑھ بجے بہاول پور کے لئے روانہ ہوئے کور ہیڈ کوارٹر میں تمام شرکاۂ کے لئے کھانے کا انتظام تھا۔ ظہر کی نماز پڑھی اس کے بعد وہاں موجود بہاول پور کی کچھ شخصیات نے جنرل ضیا سے ملاقات کی اور تقریباً ساڑھے چار بجے بہاول پور ایئر پورٹ کے لئے روانہ ہوئے۔ میں جنرل ضیا کے ساتھ تھا اور انہیں جہاز تک چھوڑنے آیا سب لوگ جہاز میں بیٹھ چکے تھے جہاز میں داخل ہوتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آپ بھی آ رہے ہیں تو آئیے مگر آپ کا تو اپنا جہاز ہے( جو سامنے کھڑا تھا )


جی ہاں۔ میں اپنے جہاز سے آئوں گا۔ اللہ حافظ
ان کا جہاز ٹیک آف کر گیا اور اس کے بعد میں بھی روانہ ہوا ، ابھی کوئی دس منٹ ہوئے تھے کہ میرے پائلٹ کرنل منہاج نے پریشانی کے عالم میں بتایا کہ سر اسلام آباد کنٹرول کا پاکستان ون pakistan one ( جنرل ضیا کا جہاز ) سے رابطہ نہیں ہورہا۔ میں بھی کوشش کر رہا ہوں لیکن کوئی رسپانس نہیں ہے۔
اللہ رحم کرے کیا ہو سکتا ہے۔
ہم سب دعائیں پڑھنے لگے۔
پائلٹ نے بتایا وہ سامنے دُھواں نظر آ رہا ہے اور دوسرے لمحے جہاز اس کے نزدیک پہنچ چکا تھا نیچے ایک ہیلی کاپٹر بھی اتر رہا تھا جو ملتان جا رہا تھا۔ ہمارا جہاز اوپر چکر لگاتا رہا۔ ہیلی کاپٹر کے پائلٹ سے رابطہ کیا انہوں نے بتایا کہ سی ون تھرٹی کریش ہوگیا ہے۔ آگ لگی ہوئی ہے کوئی زندہ نظر نہیں آ رہا ہے۔ اس قسم کے انتہائی مخدوش لمحوں میں مجھے اپنی زندگی کا سب سے اہم فیصلہ کرنا تھا۔ اگر واپس بہاول پور جاکر جائے حادثہ پر پہنچتا ہوں تو رات ہوجاتی اور اگر جائے حادثہ پر پہنچ بھی جاتا تو کچھ کر نہیں پاتا۔ نیچے رابطہ کیا تو بتایا گیا کہ سب کچھ جل کر خاکستر ہوگیا۔
میں نے پائلٹ کو کہا۔
سیدھے راولپنڈی چلو۔
جی ایچ کیو رابطہ کیا وہاں حالات پر سکون تھے۔ حکم دیا کہ فارمیشن کو ریڈ الرٹ کردو اور اگلے حکم کا انتظار کرو۔
میرے ساتھ جہاز میں بیٹھے ہوئے آفیسرز میری طرف دیکھ رہے تھے اور میں گہری سوچ میں ڈوبا ہوا تھا۔ مجھے فیصلہ کرنا تھا کہ اقتدار اپنے ہاتھوں میں لینا ہے یا اسے دینا ہے جس کی امانت ہے۔ ذہن میں والد محترم کی نصیحت گونج رہی تھی۔ حقدار کو اس کا حق دے دینا۔ اسی سوچ کے تحت میرا ذہن بنا ہوا تھا کیونکہ 1985 اور پھر 1988 میں ہم نے جنرل ضیا کو مشورہ دیا تھا کہ الیکشن کرائے اور اقتدار عوامی نمائندوں کو سونپ دے۔ اب جب حالات نے مجھے اس مقام پر لاکر کھڑا کردیا تھا تو مجھے خود وہ فیصلہ کرنا تھا۔ میں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ اقتدار جن کا حق ہے عوام کی امانت ہے ان ہی کو سونپا جائے۔ اس فیصلے سے ذہن کو کافی سکون ملا۔ خوف اور بے یقینی کے ذہن پر چھائے ہوئے بادل چھٹ گئے۔ میں ان ہی سوچوں میں تھا کہ ہم قاسم ایوی ایشن بیس دھمیال پہنچ گئے۔ کور کمانڈر ٹین کور لیفٹیننٹ جنرل عمران اللہ مجھے لینے آئے تھے۔ ہم سیدھا جی ایچ کیو پہنچے جہاں سب ہی حیران و پریشان ہمارے منتظر تھے اور دکھ بھری نظروں سے مجھے دیکھ رہے تھے۔ (جاری ہے)