ہر سال دنیا بھر میں 31 مئی کو تمباکو نوشی کی روک تھام کا عالمی دن منایا جاتا ہے، اس سلسلے میں دنیا بھر میں آگہی واک، سیمینارز اور پریس کانفرنسوں کا انعقاد کیا جاتا ہے، اس کا مقصد عوام کو تمباکو کے استعمال کے نقصانات سے آگہی فراہم کرنا ہوتا ہے جب کہ اس دن حکومتوں سے تمباکو نوشی کی روک تھام سے متعلق قوانین پر عمل درآمد کو یقینی بنانے اور نوجوان نسل کی صحت کو محفوظ رکھنے کے لیے موثر قانون سازی کا مطالبہ بھی کیا جاتا ہے۔
عالمی ادارہئ صحت نے اس سال تمباکو نوشی کی روک تھام کے عالمی دن کو ”ترک کرنے کا اعادہ“ کے تحت منانے کا اعلان کیا ہے، عالمی ادارہئ صحت کے مطابق موثر سیسیشن پالیسیز، سیسیشن کی سروسز تک رسائی کو بڑھانے، ٹوباکو انڈسٹری کے حربوں سے متعلق آگہی فراہم کرنے اور تمباکو نوشی کرنے والے افراد کو تمباکو نوشی ترک کرنے سے متعلق عالمی ادارہئ صحت کے اقدامات کی آگہی سے ایک صحت مند معاشرہ تشکیل دیا جاسکتا ہے۔ عالمی ادارہئ صحت کے مطابق تمباکو نوشی ترک کرنا اس وبا کے نتیجے میں پیدا ہونے والے معاشی اور سماجی مسائل کے باعث چیلنجنگ ہے۔ دنیا بھر میں 780 ملین کے قریب افراد کہتے ہیں کہ وہ تمباکو نوشی ترک کرنا چاہتے ہیں، لیکن ان میں سے صرف 30 فیصد افراد کو ان آلات یا سہولتوں تک رسائی حاصل ہے، جو تمباکو نوشی ترک کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔
دوسری جانب عالمی ادارہئ صحت کی جانب سے جاری کردہ سائنٹیفک تحقیق کے مطابق تمباکو نوشی کرنے والے افراد کو کرونا وائرس سے شدید خطرات لاحق ہیں جب کہ تمباکو نوشی دل، پھیپھڑوں، ذیابیطس، کینسر اور دیگر موذی امراض کا باعث بھی بنتی ہے۔ وزارت قومی صحت کے ٹوبیکو کنٹرول سیل کی ویب سائٹ پر موجود معلومات کے مطابق سال 2017 میں 163360 افراد تمباکو کے استعمال سے جاں بحق ہوئے جب کہ روزانہ پانچ ہزار پاکستانی تمباکو کے استعمال کے سبب مختلف بیماریوں میں مبتلا ہوکر اسپتالوں میں داخل ہوتے ہیں۔
حکومت پاکستان نے مستقبل کی نسلوں کی صحت کی حفاظت کے لیے بیشتر اقدامات کیے ہیں، جن میں ”پروہیبیشن آف اسموکنگ اینڈ پروٹیکشن آف نان اسموکرز ہیلتھ آرڈیننس 2002“ شامل ہے، اس کے علاوہ اس قانون کے تسلسل میں کئی ایس آر اوز جاری کیے گئے ہیں جب کہ پاکستان مئی 2004 میں عالمی معاہدہ برائے تمباکو نوشی کی روک تھام فریم ورک کنونشن آف ٹوباکو کنٹرول (ایف سی ٹی سی) پر بھی ناصرف دستخط کرچکا، بلکہ اسی سال اس معاہدے کی توثیق بھی کرچکا ہے۔
دوسری جانب وزارت نیشنل ہیلتھ سروسز، ریگولیشنز اینڈ کوآرڈی نیشن نے ڈی جی ہیلتھ کے ماتحت جولائی 2020 میں ٹوباکو کنٹرول سیل کی بنیاد رکھی جب کہ اس ٹوباکو کنٹرول سیل کے بیشتر اقدامات کو عالمی سطح پر خصوصاً عالمی ادارہئ صحت کی جانب سے سراہا گیا ہے۔ صوبہ پنجاب کے پانچ اضلاع بشمول اسلام آباد میں ضلعی حکومتوں اور متعلقہ ڈپٹی کمشنرز و ایڈیشنل ڈپٹی کمشنرز کی مدد سے قائم ٹوباکو کنٹرول سیل کی جانب سے تمباکو نوشی کی روک تھام سے متعلق بیشتر اقدامات کیے جاچکے ہیں۔
ایف سی ٹی سی سیکریٹریٹ نے اسموک فری اسلام آباد ماڈل کو بین الاقوامی سطح پر سراہا جب کہ اپنی سالانہ رپورٹ کے ٹائٹل پیج پر روز اینڈ جیسمین پارک کی تصویر بھی لگائی، جو اسموک فری ماڈل پارک ہے اور پاکستان کے لیے ایک بہت بڑا اعزاز ہے۔ ڈاکٹر منہاج السراج پروجیکٹ ڈائریکٹر ٹوباکو کنٹرول نے اسلام آباد میں اسموک فری ماڈل کی بنیاد رکھی جب کہ اب ان کی زیر قیادت کراچی کو اسموک فری ماڈل شہر بنانے کا باقاعدہ آغاز بھی کیا جاچکا ہے۔
گزشتہ سال کمشنر کراچی کی حمایت سے کراچی کو اسموک فری ماڈل شہر بنانے کا آغاز کیا گیا، جس کے تحت شروعات میں کراچی کے دو اضلاع ضلع شرقی و جنوبی میں وزارت قومی صحت ٹوباکو کنٹرول نے متعلقہ ڈپٹی کمشنرز و ایڈیشنل ڈپٹی کمشنرز کی حمایت اور تعاون سے کام کا باقاعدہ آغاز کیا جب کہ اس سال تمباکو نوشی کی روک تھام کے عالمی دن کے موقع پر ڈاکٹر منہاج السراج اور پروجیکٹ منیجر ٹوبیکو کنٹرول محمد آفتاب کی مسلسل کاوشوں کی بدولت عالمی ادارہئ صحت نے ایمرو ریجن میں تمباکو نوشی کی روک تھام کے لیے موثر اقدامات کرنے پر پاکستان کو ایوارڈ سے نوازنے کا اعلان کیا ہے جب کہ توقع ہے کہ یہ ایوارڈ عالمی ادارہئ صحت کی جانب سے تمباکو نوشی ترک کرنے کے عالمی دن 31 مئی کے موقع پر اسلام آباد میں ڈاکٹر منہاج کو دیا جائے گا۔
دوسری جانب ٹوباکو کنٹرول ڈائریکٹوریٹ کو دوسری اہم کامیابی کراچی میں ملی ہے، وہ یہ کہ کمشنر کراچی نے شہر میں تمباکو نوشی کی روک تھام کے قوانین پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے چند دن پہلے تمام اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز کو اپنے متعلقہ اضلاع میں ٹوباکو کنٹرول سیل اور ڈسٹرکٹ امپلی مینٹیشن کمیٹی کے قیام کی ہدایات جاری کی ہیں۔ اس کے علاوہ جب ہم وزارت قومی صحت ٹوبیکو کنٹرول کے نمایاں اقدامات کی بات کریں تو اس میں شامل ہیں، اسموک فری ایپلی کیشن، جس کے ذریعے شہری بذریعہ موبائل فون تمباکو نوشی کی روک تھام کے قوانین کی خلاف ورزی کو رپورٹ کرسکتے ہیں، اسلام آباد کے تمام عوامی مقامات بشمول پارکس کو اسموک فری قرار دیا جانا اور ٹوبیکو وینڈر ایکٹ پر عمل درآمد، جس کی بدولت اسلام آباد میں تمباکو کی اشیاء فروخت کرنے والے دُکان داروں کے لیے ایکسائز سے لائسنس کا حصول لازم ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر ان اقدامات اور ان پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کا تسلسل جاری رہا تو بہت جلد پاکستان اسموک فری ماڈل ملک کے طور پر دنیا بھر میں پہچانا جائے گا۔