اسلام آباد: 2015 سے 2023 کے درمیان امریکا میں حاصل آمدن پر ٹیکس کی ادائیگی نہ کرنے کے باعث اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے کی جانب سے گلوکار راحت فتح علی خان کو کنسرٹ میں شرکت کے لیے ویزا جاری کرنے سے انکار کردیا گیا۔
امریکی سفارت خانے کا کہنا ہے کہ ویزا حاصل کرنے کے لیے آپ کو 2015 تا 2023 ٹیکس ادائیگی کے حوالے سے آئی آر ایس ڈاکیومینٹیشن اور بولی وُڈ ایونٹ ایل ایل سی کی طرف سے قانونی دستاویزات فراہم کرنا ہوں گی، تاہم راحت فتح علی خان کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے امریکا میں اپنے پروموٹرز کے ذریعے تمام ٹیکسوں کی ادائیگی کردی تھی۔
راحت فتح علی خان نے بتایا کہ انہوں نے اپنے پروموٹرز سے رابطہ کرکے ان سے ٹیکسوں کی ادائیگی کے مطلوبہ دستاویزات فراہم کرنے کے لیے کہا ہے اور اس کے بعد یہ دستاویزات سفارت خانے میں جمع کرائی جائیں گی۔
انہوں نے کہا کہ انہوں نے رواں سال امریکا کا دورہ کیا تھا اور اگر مذکورہ عرصہ کے ٹیکسوں کی ادائیگی نہ کی ہوتی تو سفارت خانہ پہلے ویزا جاری نہ کرتا، ان ہتھکنڈوں کے ذریعے انہیں اور ملک کو بدنام کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
راحت فتح علی خان نے رواں ماہ 18 نومبر 2023 کو ایسوسی ایشن آف پاکستانی فزیشنز آف نارتھ امریکا کے زیر اہتمام میوزیکل شو میں شرکت کیلئے امریکا جانا تھا۔
کنسرٹ کی بکنگ راحت فتح علی خان کے پروموٹر ریحان صدیقی کے ذریعے کرائی گئی تھی، پروموٹر نے ہی گلوکار کے ویزے کیلئے درخواست دی اور ضروری دستاویزات سفارت خانے کو فراہم کیں تاہم سفارت خانے نے گلوکار کو 2015-23 کے دوران اُن کی امریکی آمدن پر ٹیکس کے معاملات کی وجہ بتاتے ہوئے ویزا دینے سے انکار کیا ہے۔
دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ راحت فتح علی خان ماضی میں چار مختلف پروموٹرز کے ذریعے امریکا گئے جن میں دی میوزک ورلڈ ایل ایل سی، دی وائبرینٹ میڈیا گروپ ایل ایل سی، دیسی فیسٹ 2018 ایل ایل سی، اور سائی پروڈکشن شامل ہیں۔ ان کمپنیوں نے 2015-23 تک راحت فتح کو اسپانسر کیا۔
گلوکار کا دعویٰ ہے کہ انہیں ان کنسرٹس کی رقم ٹیکس کٹوتی کے بعد ملی لہٰذا امریکا میں اس آمدن پر ٹیکس ادا کرنا پروموٹرز کی ذمے داری تھی۔
2012-23 سے، راحت فتح علی خان کے تمام میوزیکل شوز ان کے بین الاقوامی مینیجر/میوزک پروڈیوسر سلمان احمد کے ذریعے بک کیے گئے تھے جو متحدہ عرب امارات میں مقیم ہیں۔
شوز کی بکنگ کے علاوہ وہ راحت فتح کے ٹیکس اُمور کو پورا کرنے کے بھی ذمے دار تھے تاہم ذاتی وجوہ کی بنا پر دونوں نے تعلق ختم کردیا ہے۔
امریکا میں گلوکار کے نئے منتظمین کی رائے ہے کہ کسی نے سفارت خانے کو راحت فتح علی خان کے ٹیکس کے معاملات کے بارے میں اطلاع دی ہے اور یہ کوئی ایسا شخص ہو سکتا ہے جو ان کے قریب رہا ہو۔ جب راحت فتح علی خان کے سابق مینیجر/ پروڈیوسر سلمان احمد سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ وہ 2012 سے ان کے ساتھ ہیں،گزشتہ 11 برسوں میں ہم نے بین الاقوامی سطح پر سینکڑوں کنسرٹس کیے، ہمارے تعلقات مثالی تھے، حال ہی میں خان صاحب نے فیصلہ کیا کہ ان کا فرسٹ کزن ان کے تمام معاملات دیکھے گا۔
18 نومبر کے میوزیکل شو کے آرگنائزر ڈاکٹر عاصم سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ جب بھی وہ پاکستان سے کسی فنکار کو مدعو کرتے ہیں تو وہ کچھ پروموٹرز کے ذریعے کرتے ہیں، ہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ راحت فتح کو ٹیکس کی بنیاد پر ویزا دینے سے انکار کر دیا جائے گا کیونکہ وہ ماضی قریب میں امریکا آئے تھے، ہم نے کچھ اور فنکاروں کو بھی مدعو کیا تھا اور راحت فتح علی خان کے علاوہ سب کو ویزے مل گئے ہیں، ایسا کوئی طریقہ نہیں ہے کہ سفارت خانہ کسی کو ویزا جاری کرنے سے پہلے ٹیکس ریکارڈ چیک کرے، ہو سکتا ہے کہ کسی نے سفارت خانے کو اس کی اطلاع دی ہو۔
امریکا میں راحت فتح علی خان کے نئے پروموٹر ریحان صدیقی نے نجی ٹی وی سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ بطور پروموٹر یہ راحت فتح علی کے ساتھ اُن کا پہلا شو تھا، ہمیں نہیں معلوم کہ ماضی میں اُن کے پروموٹرز نے گلوکار کا ٹیکس ادا کیا یا نہیں، اگرچہ ویزا نہیں ملا لیکن اِس دورے پر ان کا ٹیکس ادا کرنے کی ذمے داری ہماری تھی۔