برمانو کی تلاش کیلئے جان سے گزرنے والا عظیم کرپٹو زولوجسٹ۔۔ جورڈی میگرانیر

محمد راحیل وارثی

قدرت نے بے شمار مخلوقات تخلیق کی ہیں۔ بہت سی اب بھی ایسی ہیں، جن سے دُنیا واقف تک نہیں۔ ہر کچھ عرصے بعد دُنیا اور سمندر کی گہرائیوں سے نت نئے راز افشاں ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ زیر نظر مضمون میں برمانو کی تلاش میں پاکستان میں سالہا سال تک رہنے والے عظیم کرپٹو زولوجسٹ جورڈی میگرانیر کی زندگی کا مختصر احاطہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس مضمون کی تیاری میں مختلف ویب سائٹس اور اخبارات سے استفادہ کیا گیا ہے۔
جورڈی فریڈرِیکو  میگرانیر (Jordi Federico Magraner) ایک فرانسیسی-اسپینی زولوجسٹ، کرپٹو زولوجسٹ اور ethnologist تھے، جنہوں نے اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ شمالی پاکستان، خاص طور پر چترال کی وادیوں میں بَرمانُو (Barmanou) نامی مافوق الفطرت مخلوق کی تلاش کے لیے وقف کردیا تھا۔ وہ 1987 سے 2002 تک اس مہم پر مسلسل کام کرتے رہے اور ان کے کام نے مقامی لوگوں اور سائنس دانوں دونوں کے لیے اتنا اثر چھوڑا کہ آج بھی ان کی یاد زندہ ہے۔


جورڈی میگرانیر کا تعلق یورپ سے تھا۔ ان کے والدین نے انہیں اسپین (کاتالونیا) میں پروان چڑھایا، تاہم بعد میں وہ فرانس منتقل ہو گئے۔ جورڈی نے زولوجی اور ماقبلِ انسانی مخلوقات کی تحقیق میں دلچسپی لی اور بطور محقق وسطی ایشیا کے باقی ماندہ ہومینیڈز (relict hominids) پر توجہ مرکوز کی۔ وہ “Association Troglodytes” نامی تنظیم کے ساتھ کام کررہے تھے، جو ایسی مخلوقات کی تلاش اور مطالعے کو فروغ دیتی تھی جن کا وجود مروجہ سائنسیات میں کم معروف ہے، مثلاً یتی، بگ فُٹ یا ایسے انسان نما جانور جو زمانہ قدیم کے انسانوں یا نینڈر تھال جیسی نسلوں سے مشابہت رکھتے ہوں۔


جورڈی نے 1987 میں پہلی بار چترال کی وادیوں کا رخ کیا، خاص طور پر ہندوکش کے پہاڑی علاقوں میں، جہاں مقامی لوگوں کے روایتی قصے بَرمانُو (Barmanou) نامی مافوق الفطرت مخلوق کے بارے میں تھے۔ بَرمانُو ایک “ہومینیڈ پرائمٹ کرپٹائیڈ” (humanoid primate cryptid) ہے، یعنی ایک ایسی مخلوق جو آدھی انسان نما اور آدھی بندر نما دکھائی دیتی ہے۔ مقامی لوگوں نے اس کے بارے میں مختلف بیان دیے ہیں۔ کچھ کا کہنا ہے کہ یہ جانور عورتوں کو اغوا کرتا ہے اور ان کے ساتھ جنسی عمل کی کوشش کرتا ہے جب کہ بعض کہانیوں میں بَرمانُو کو جانوروں کی کھال اوڑھے ہوئے بھی بیان کیا گیا ہے۔ 1988 تا 1990 کے درمیاں، جورڈی میگرانیر نے Yannik اور Erik L’Homme کے ساتھ چترال میں قریباً 19 ماہ گزارے اور اس دوران انہوں نے 27 مختلف گواہوں سے ایسے بیانات جمع کیے، جنہوں نے وحشی بالوں والے انسان (wild hairy men) کے مشاہدے کیے تھے۔ ان میں 31 علیحدہ واقعات تھے جن کا تعلق اس مخلوق کے مشاہدے سے تھا۔ میگرانیر اور ان کی ٹیم نے 1994 میں چترال کی شی شی کوہ وادی (Shishi Kuh valley) میں ایک شام انتہائی عجیب آوازیں سنی تھیں۔ ان آوازوں کی نوعیت ایسی تھی کہ محققین کا خیال تھا یہ ایک primitive primate کی “گُٹُرال آواز” ہوسکتی ہے، جیسی آواز صرف قدیم آواز خانوں (voice-box) والے جانور دے سکتے تھے۔ مقامی لوگوں سے کیے گئے انٹرویوز اور بیانات کے مطابق، بَرمانُو کو وہ جانور کھم بردار جسم کے ساتھ، گہرے رنگ کی بالوں والی مخلوق کے طور پر بیان کرتے تھے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ بَرمانُو نے جنگلی غاروں کا پتہ بتایا ہے اور کچھ نے بتایا کہ اس مخلوق کو جانوروں کی کھال یا چمڑا اُونٹ یا دیگر جانوروں سے بنا لباس پہنے ہوئے دیکھا گیا ہے۔


میگرانیر نہ صرف بَرمانُو پر تحقیق کرتے تھے بلکہ کیلاش کے لوگوں کی ثقافت اور طرزِ زندگی پر بھی ان کی خصوصی توجہ رہی۔ ان کا خیال تھا کہ یہ مقامی روایتی قوم اپنی منفرد ثقافتی شناخت اور مذہبی رسوم کے ذریعے قدرتی اور قدیم مخلوقات کے قصوں کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔
جورڈی میگرانیر کی زندگی آسان نہیں تھی۔ انہوں نے مقامی طرزِ زندگی اپنایا، چترال کی وادیوں میں مقامی لوگوں کے گھروں میں رہائش اختیار کی اور انتہائی مشکل موسمی اور جغرافیائی حالات میں بھی اپنا کام جاری رکھا۔ ان کے مستقل ساتھی ان کے سات کتے اور دو گھوڑے تھے، جن کے ساتھ وہ دنیا کی ان ویران پہاڑیوں میں لمبے عرصے تک ٹھہرتے۔ ایک اور حیران کن واقعہ یہ ہے کہ وہ غیر قانونی طور پر افغانستان کی سرحد عبور کرتے تھے، خاص کر نوریستان صوبے (Nuristan) اور وہاں کے کچھ عسکری گروپوں کے ساتھ دوستی بھی کی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ ایک بار انہیں وہاں اغوا بھی کرلیا گیا تھا، لیکن انہوں نے مذہب تبدیل کرنے کا ڈرامہ کرکے خود کو رہا کروایا۔
2 اگست 2002 کو، میگرانیر کا قتل چترال کے ایک گاؤں میں ہوا۔ ان کا گلا کٹا ہوا پایا گیا اور ان کے ساتھ رہنے والا ایک مقامی نوکر (جو افغان بتایا جاتا ہے) لاپتا ہوگیا۔ قتل کی تحقیقات کی گئیں مگر کوئی واضح ملزم سامنے نہ آیا اور معاملہ آج بھی ایک پُراسرار کیس کے طور پر برقرار ہے۔ مقامی قبائلی لوگوں نے بہت عزت کے ساتھ ان کی آخری رسوم ادا کیں۔ بعض کہانیوں کے مطابق کیلاش کی کمیونٹی نے اپنے رسم و رواج کے مطابق ان کو دفن کیا اور کہا کہ وہ ان میں سے ایک بن گئے ہیں۔ ان کی موت کا پاکستان اور کرپٹو زولوجی کی دنیا پر گہرا اثر ہوا— وہ بَرمانُو کے مطالعے کے حوالے سے سب سے معروف اور پُرخلوص محقق بن گئے۔
میگرانیر نے اپنی تحقیق کے ذریعے بَرمانُو کی روایت کو صرف مقامی قصے کہانیوں کی حد تک نہ چھوڑا بلکہ اسے سائنسی اور اکیڈمک مباحثے کا حصہ بنایا۔ انہوں نے “Les Hominidés reliques d’Asie Centrale جیسی تحریریں لکھیں اور اپنی مشاہداتی رپورٹس میں ایسی گواہیوں کو درج کیا جو مقامی لوگوں کے تجربات کو باوقار انداز میں پیش کرتی ہیں۔
ان کا کام نہ صرف کرپٹو زولوجی بلکہ Ethnologist ماہرین اور ثقافتی ماہرین کے لیے بھی باعثِ تحریک رہا۔ کچھ تحقیق کاروں کا خیال ہے کہ بَرمانُو ایک ایسا بقایا ہومینیڈ ہوسکتا ہے جو انسانی ارتقاء کی تاریخ میں گم شدہ نسلوں سے تعلق رکھتا ہو، مثلاً نینڈر تھال کی قسم کی انسان نما مخلوقات۔
میگرانیر کی موت کے بعد، ان کی خدمات کو فراموش نہیں کیا گیا۔ ان کے چاہنے والوں اور محققین نے “دوستِ جورڈی میگرانیر” (Friends of Jordi Magraner) نامی ایک تنظیم بنائی تاکہ ان کے نام کو زندہ رکھا جائے اور ان کے تحقیقاتی نوٹس، دستاویزات اور بیانات محفوظ کیے جائیں۔ کچھ ماہرین نے کیلاش مذہب اور ثقافت کو عالمی ورثے کا حصہ بنانے کے لیے بھی کوششیں کی ہیں، اس امید کے ساتھ کہ میگرانیر کے کام سے متاثر ہوکر مقامی لوگوں کی شناخت اور روایات کو عالمی سطح پر تسلیم کیا جاسکے۔ جورڈی میگرانیر ایسے شخص تھے جنہوں نے اپنی زندگی کو غیر معروف اور پراسرار مخلوقات کی تلاش کے لیے وقف کیا، لیکن ان کی تحقیق نے شمالی پاکستان کی ثقافت، مقامی عقائد اور انسانی ارتقاء کے رازوں کو ایک نئی روشنی میں اجاگر کیا۔ ان کی مہم، جو بَرمانُو کی تلاش تھی، نہ صرف ایک سائنس دان کی تلاش تھی بلکہ ایک انسان کی روحانی جستجو بھی تھی۔ وہ دو دنیاؤں کے بیچ ایک پُل تھے۔ جورڈی میگرانیر کی زندگی اور کام آج بھی ہم سب کے لیے ایک سبق ہے: کہ جرأت، وابستگی اور سچے عشق کے بغیر کوئی مہم مکمل نہیں ہوتی اور بعض اوقات وہ مہم جو جنہیں کم سمجھا جاتا ہے، وہی ہماری تاریخ اور فطرت کی سب سے بڑی داستانیں دریافت کرتے ہیں۔

BarmanouChitralCrypto ZologistJordi MargranerMurder