کراچی: سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ نئی ترامیم کے ساتھ صوبائی اسمبلی سے منظور ہوگیا، بل کی منظوری کے دوران اپوزیشن ارکان نے شور شرابا اور احتجاج کیا۔
اپوزیشن ارکان نے ایوان سر پر اُٹھالیا، اسپیکر ڈائس کا گھیراؤ کیا، حکومت مخالف بینرز اُٹھائے، نعرے لگائے اور ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ ڈالیں، معاملہ تلخ کلامی اور گالم گلوچ سے آگے بڑھ کر ہاتھا پائی تک پہنچ گیا۔
وزیراعلیٰ مراد علی شاہ احتجاج کرنے والوں پر ناراض، بولے، وفاق میں تو جاہل حکومت ہے ہی مگر بدقسمتی سے سندھ میں بھی اَن پڑھ اپوزیشن آگئی، بلدیاتی ایکٹ میں اپوزیشن کی دونوں ترامیم شامل کی گئی ہیں، ترمیم شدہ ایکٹ منظوری کے لیے دوبارہ گورنر کو بھجوائیں گے۔
بلدیاتی ایکٹ کے مطابق میئر کا الیکشن شو آف ہینڈ کے ذریعے ہوگا اور منتخب ارکان ہی میئر کا الیکشن لڑسکیں گے۔ میئر کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کا شریک چیئرمین اور سالڈ ویسٹ کا چیئرمین ہوگا۔
اپوزیشن ارکان نے اسپیکر ڈائس کا گھیراؤ بھی کیا۔ اس موقع پر پی ٹی آئی اور پیپلزپارٹی اراکین آمنے سامنے آگئے، ایک دوسرے کو دھکے دیے۔
پیپلزپارٹی اور اپوزیشن اراکین کے درمیان نامناسب جملوں کا تبادلہ بھی ہوا۔ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کا کہنا ہے کہ بل عوام کی امنگوں کے مطابق ہے، سندھ کے شہری علاقوں میں ٹاؤن سسٹم لایا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں پاکستان کاحصہ سمجھو، ایسے حالات پیدا نہ کرو کہ ہم کچھ اور سوچیں۔
مراد علی شاہ نے سندھ اسمبلی میں اپوزیشن جماعتوں اور وفاقی حکومت پر بھی شدید تنقید کی۔
سندھ اسمبلی کے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو میں پاکستان تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر بلال غفار نے کہا کہ سندھ اسمبلی میں ایک اور سیاہ دن اور سویلین ڈکٹیٹر شپ ہے۔ حکومت نے سندھ پر قبضے کا قانون منظور کیا اور ہمیں بات کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔
ایم کیو ایم کے رکن کنور نوید جمیل نے کہا کہ سندھ حکومت نے آمدنی والے ادارے اپنے پاس رکھ لیے۔ بلدیاتی اداروں کے اسپتالوں اور اسکولوں کو بھی قومیا لیا۔ یہ کرپشن کا قانون لائے ہیں جس پر اپوزیشن کو بات تک نہیں کرنے دی گئی۔
جی ڈی اے کے رکن عارف مصطفیٰ جتوئی نے کہا کہ پیپلز پارٹی مشرف کے نظام کو ظلم کا نظام قرار دیتی تھی اور خود بھی وہی نظام لانے کا دعویٰ کررہی ہے۔
ایم کیو ایم کے رکن محمد حسین نے کہا کہ اپوزیشن کا مشترکہ فیصلہ ہے کہ سندھ اسمبلی میں ان کی ڈکٹیٹرشپ اور بلدیاتی اداروں کے وسائل پر قبضہ نہیں کرنے دیں گے۔