وطن عزیز قیامت تک قائم و دائم رہنے کے لیے معرض وجود میں آیا تھا۔ پاکستان کی ترجیح تمام ممالک سے بہتر تعلقات کی رہی ہے اور اس حوالے سے اس کی کوششیں کسی سے پوشیدہ نہیں، اس کے باوجود وطن عزیز کے دشمنوں کی تعداد کسی طور کم قرار نہیں دی جاسکتی، وہ پاکستان کو نقصان پہنچانے کی کوششوں میں ابتدا سے ہی مصروف عمل رہے ہیں، تاہم اُنہیں اپنے مذموم مقاصد میں ہر بار ہی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے کہ اُن کی راہ میں حائل سب سے بڑی رُکاوٹ افواج پاکستان ہیں، جس کا ہر افسر اور اہلکار ملک کی حفاظت کے لیے ہر دم اپنی زندگی قربان کرنے پر تیار ہوتا ہے۔
اس حوالے سے ڈھیروں مثالیں موجود ہیں۔ نشان حیدر ملک عزیز کا سب سے بڑا فوجی اعزاز ہے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نسبت سے اس کا یہ نام رکھا گیا ہے۔ آج کیپٹن راجہ محمد سرور بھٹی شہید کا یوم شہادت ہے۔ آپ کو پہلا نشان حیدر پانے والے فوجی کا اعزاز حاصل ہوا۔ آپ ضلع راولپنڈی کی تحصیل گوجر خان کے گاؤں سنگھوڑی میں 10 نومبر 1910 کو پیدا ہوئے۔ 1928 میں آپ نے فیصل آباد سے میٹرک کیا۔
تقسیم سے قبل آپ برطانوی ہند حکومت کی فوج میں ذمے داریاں انجام دیتے رہے اور سپاہی سے ترقی کرتے کرتے کیپٹن کے عہدے تک پہنچے۔ اس دوران آپ نے 1944 میں برما کے محاذ پر دوسری جنگ عظیم میں بھی حصّہ لیا۔ قیام پاکستان کے بعد آپ پاکستان آرمی سگنل کور (پاک فوج) کا حصّہ بنے۔
وطن عزیز کی پہلی ہی جنگ بھارت سے جموں و کشمیر کے مسئلے پر ہوئی۔ کیپٹن سرور پنجاب رجمنٹ کی سیکنڈ بٹالین میں کمپنی کمانڈر کے عہدے پر خدمات انجام دے رہے تھے، انہیں مقبوضہ کشمیر میں آپریشن پر مامور کیا گیا۔ 27 جولائی 1948 کو اُنہوں نے کشمیر کے اُڑی سیکٹر میں دشمن کی اہم فوجی پوزیشن پر حملہ کیا۔
دشمن کے مورچے کے قریب پہنچ کے انہیں معلوم ہوا کہ دشمن نے مورچوں کو خاردار تاروں سے محفوظ کرلیا ہے۔ اس کے باوجود کیپٹن سرور مسلسل فائرنگ کرتے رہے۔ اس دوران دشمن کی بندوقوں سے نکلی کئی گولیاں ان کے جسم میں پیوست ہوچکی تھیں، لیکن اپنے زخموں کی پروا کیے بغیر 6 ساتھیوں کے ہمراہ اُنہوں نے خاردار تاروں کو عبور کرکے دشمن پر آخری حملہ کیا۔ اس دوران دشمن کی ایک گولی آپ کے سینے پر لگی اور آپ نے جامِ شہادت نوش فرمایا۔