تحریر: محمد انس صدیقی
گزشتہ چند ماہ میں معاشرے کے حالات پر غور و فکر کرنے کا موقع ملا تو سوچا اپنی رائے کو قلم بند کیا جائے۔
اگر ہم اپنے معاشرے پر نظر ڈالیں تو ہمیں خصوصاً ہماری نوجوان نسل والدین کے مخالف اور ان کی فرمانبرداری سے متنفر نظر آتی ہے اور اکثر والدین بھی یہ شکایت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ ہم نے اپنی اولاد کی تربیت میں کوئی کمی نہیں چھوڑی، اس کے باوجود وہ آج ہم سے باغی ہیں۔ والدین کی نافرمانی اور ان کے فیصلے کی مخالفت کے کئی اسباب ہیں، جس میں سرِفہرست والدین کی بے جا سختیاں، پابندیاں اور اپنی ہی اولاد پر عدم اعتماد ہے، وہ اولاد کی فکر میں اس قدر حساس ہوجاتے ہیں کہ ان کو اعلیٰ تعلیم کے لیے یونیورسٹی تو بھیجتے ہیں لیکن کسی بھی ہم نصابی و غیر نصابی سرگرمی میں شرکت کی اجازت نہیں دیتے، وہ اپنی اولاد کو (Co Education) کے نظام میں تعلیم دلوانے پر تو آمادہ ہیں لیکن مخالف جنس سے دوستی، ان کے ساتھ گروپ اسٹڈی کرنے یا ان سے بات چیت کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ وہ اپنی اولاد کو کامیاب تو دیکھنا چاہتے ہیں لیکن دراصل خود ان کی راہ میں رکاوٹ بن جاتے ہیں، وہ اپنی اولاد کو شادی کے بعد شاد و آباد تو دیکھنا چاہتے ہیں لیکن ہم سفر کے انتخاب میں ان کی رائے کو کوئی اہمیت نہیں دیتے، والدین اپنی اولاد سے یہ توقع تو رکھتے ہیں کہ وہ گھر کی ذمے داریاں سنبھالیں، لیکن وہ گھریلو معاملات میں ان کو رائے پیش کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔
ان بے جا پابندیوں اور عدم اعتماد کا نتیجہ آخرکار یہ نکلتا ہے کہ اولاد والدین سے بے زار اور عاجز ہوجاتی ہے اور وہ پھر کوئی بھی غلط قدم اٹھانے سے دریغ نہیں کرتی۔ میری مذکورہ بالا باتوں پر کئی والدین اس بات کی مخالفت کریں گے کہ ہم اپنی اولاد کو اعلیٰ تعلیم کے لیے یونیورسٹی بھیج رہے ہیں، نا کہ کسی اضافی سرگرمی کو انجام دینے اور نہ ہی کسی نامحرم سے دوستی کرنے کے لیے اس کا جامع جواب یہ ہے کہ اگر کوئی بھی لڑکا/لڑکی کسی بھی تعلیمی ادارے میں تعلیم حاصل کرتے ہیں تو انہیں اس ادارے کے قواعد و ضوابط کے مطابق ہر سرگرمی میں شرکت کرنا لازمی ہوتا ہے اور وہ سرگرمی بھی کوئی غیر اخلاقی حرکات و سکنات کی حامل نہیں ہوتیں۔ دوسری بات کہ اگر آپ اپنی اولاد کو (Co Education)میں تعلیم حاصل کرنے بھیجتے ہیں تو ممکن ہی نہیں کہ وہ مخالف جنس کے تعاون کے بغیر اپنی پڑھائی کرے، تعلیمی دورانیے میں کبھی نہ کبھی کسی موقع پر انہیں ایک دوسرے کی ضرورت لازمی پڑے گی اور اس تناظر میں اس بات کو بھی نظرانداز نہیں کرسکتے کہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی عمر نوجوانی ہے اور یہ کسی بھی شخص کی زندگی کا وہ حصہ ہوتا ہے کہ جب وہ اپنے مخالف جنس کی طرف فطرتاً راغب ہوتا ہے۔
ہمارے معاشرے میں نوجوانوں کی بغاوت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ والدین ان پر حد سے زیادہ سختی کرتے ہیں، ان کی رائے کو اہمیت نہ دے کر گھر کے بڑے بزرگوں کی بات کو پتھر پر لکیر قرار دے کر نوجوانوں پر مسلط کردیتے ہیں، اولاد کے احساس و جذبات سے لاعلم رہتے ہیں اور بالآخر یہ سب وجوہ کسی بڑے حادثے یا بدنامی کا پیش خیمہ ہوتے ہیں اور بعدازاں والدین یہ شکوہ کرتے نظر آتے ہیں کہ ہماری بہترین تربیت کے باجود اولاد ہم سے باغی ہے۔ اس کا بہترین اور آسان حل یہ ہے کہ والدین بچپن ہی سے اولاد سے دوستانہ رویہ اختیار کریں، غلطیوں پر سمجھائیں، اپنے اور اولاد کے درمیان ایسا رشتہ قائم کریں کہ وہ اپنی زندگی کا کوئی بھی قدم آپ کے مشورے کے بغیر نہ اٹھائیں۔
اگر وہ نوجوانی کی عمر کو پہنچ گئے ہیں تو گھریلو معاملات میں ان کی رائے کی قدر کریں، اسی دوستانہ ماحول کی بدولت ان کی دوستوں کی محفل (Friends Gathering)کا بھی علم رکھیں، تاکہ بروقت انہیں بری صحبت سے بچاسکیں۔ شادی کی عمر ہونے پر پہلے ان کی رائے کو ترجیح دیں کہ اگر وہ کسی کو پسند کرتے ہیں تو والدین کو آگاہ کریں، پھر والدین کسی رنگ و نسل اور خود ساختہ معیار کو وجہ بنائے بغیر اس لڑکا/لڑکی کی تحقیق کریں اور اگر وہ کسی بھی غلط اور غیر شرعی فعل کا مرتکب نہ ہو تو بلا وجہ اولاد کی پسند مسترد نہ کریں، انہیں تعلیمی اداروں میں بھیجنے کے بعد ان پر اعتماد کریں، ان سے ایسی دوستی قائم کریں کہ وہ کوئی بات آپ سے نہ چھپائیں، انہیں گھریلو ذمے داریوں کے ساتھ مختلف سرگرمیوں میں حصہ لینے کی ترغیب دیں اور ان کی اچھی کارکردگی پر حوصلہ افزائی کریں۔ ان کے ذہنی، جذباتی اور قلبی احساسات کو سمجھیں تاکہ آپ بروقت ان سے اِن تمام موضوعات پر بات چیت کرکے اپنی اولاد کو مطمئن کرسکیں اور اولاد کی طرف سے ہر قسم کی بغاوت اور نافرمانی سے بچ سکیں اور اپنی اولاد کو کوئی بھی سنگین قدم اٹھانے سے محفوظ رکھ سکیں۔
اللّٰہ عزوجل تمام والدین کو اولاد کے حقوق و فرائض ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور سب کی اولاد کو والدین کے حقوق و فرائض ادا کرتے رہنے، ان کی فرمانبرداری اور خدمت گزاری کرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین ثمہ آمین)
(نوٹ: مضمون نگار کی رائے سے وائس آف سندھ کا متفق ہونا ضروری نہیں)
بغاوتِ اولاد۔۔۔ اسباب و حل
محمد انس صدیقی
گزشتہ چند ماہ میں معاشرے کے حالات پر غور و فکر کرنے کا موقع ملا تو سوچا اپنی رائے کو قلم بند کیا جائے۔
اگر ہم اپنے معاشرے پر نظر ڈالیں تو ہمیں خصوصاً ہماری نوجوان نسل والدین کے مخالف اور ان کی فرمانبرداری سے متنفر نظر آتی ہے اور اکثر والدین بھی یہ شکایت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ ہم نے اپنی اولاد کی تربیت میں کوئی کمی نہیں چھوڑی، اس کے باوجود وہ آج ہم سے باغی ہیں۔ والدین کی نافرمانی اور ان کے فیصلے کی مخالفت کے کئی اسباب ہیں، جس میں سرِفہرست والدین کی بے جا سختیاں، پابندیاں اور اپنی ہی اولاد پر عدم اعتماد ہے، وہ اولاد کی فکر میں اس قدر حساس ہوجاتے ہیں کہ ان کو اعلیٰ تعلیم کے لیے یونیورسٹی تو بھیجتے ہیں لیکن کسی بھی ہم نصابی و غیر نصابی سرگرمی میں شرکت کی اجازت نہیں دیتے، وہ اپنی اولاد کو (Co Education) کے نظام میں تعلیم دلوانے پر تو آمادہ ہیں لیکن مخالف جنس سے دوستی، ان کے ساتھ گروپ اسٹڈی کرنے یا ان سے بات چیت کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ وہ اپنی اولاد کو کامیاب تو دیکھنا چاہتے ہیں لیکن دراصل خود ان کی راہ میں رکاوٹ بن جاتے ہیں، وہ اپنی اولاد کو شادی کے بعد شاد و آباد تو دیکھنا چاہتے ہیں لیکن ہم سفر کے انتخاب میں ان کی رائے کو کوئی اہمیت نہیں دیتے، والدین اپنی اولاد سے یہ توقع تو رکھتے ہیں کہ وہ گھر کی ذمے داریاں سنبھالیں، لیکن وہ گھریلو معاملات میں ان کو رائے پیش کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔
ان بے جا پابندیوں اور عدم اعتماد کا نتیجہ آخرکار یہ نکلتا ہے کہ اولاد والدین سے بے زار اور عاجز ہوجاتی ہے اور وہ پھر کوئی بھی غلط قدم اٹھانے سے دریغ نہیں کرتی۔ میری مذکورہ بالا باتوں پر کئی والدین اس بات کی مخالفت کریں گے کہ ہم اپنی اولاد کو اعلیٰ تعلیم کے لیے یونیورسٹی بھیج رہے ہیں، نا کہ کسی اضافی سرگرمی کو انجام دینے اور نہ ہی کسی نامحرم سے دوستی کرنے کے لیے اس کا جامع جواب یہ ہے کہ اگر کوئی بھی لڑکا/لڑکی کسی بھی تعلیمی ادارے میں تعلیم حاصل کرتے ہیں تو انہیں اس ادارے کے قواعد و ضوابط کے مطابق ہر سرگرمی میں شرکت کرنا لازمی ہوتا ہے اور وہ سرگرمی بھی کوئی غیر اخلاقی حرکات و سکنات کی حامل نہیں ہوتیں۔ دوسری بات کہ اگر آپ اپنی اولاد کو (Co Education)میں تعلیم حاصل کرنے بھیجتے ہیں تو ممکن ہی نہیں کہ وہ مخالف جنس کے تعاون کے بغیر اپنی پڑھائی کرے، تعلیمی دورانیے میں کبھی نہ کبھی کسی موقع پر انہیں ایک دوسرے کی ضرورت لازمی پڑے گی اور اس تناظر میں اس بات کو بھی نظرانداز نہیں کرسکتے کہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی عمر نوجوانی ہے اور یہ کسی بھی شخص کی زندگی کا وہ حصہ ہوتا ہے کہ جب وہ اپنے مخالف جنس کی طرف فطرتاً راغب ہوتا ہے۔
ہمارے معاشرے میں نوجوانوں کی بغاوت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ والدین ان پر حد سے زیادہ سختی کرتے ہیں، ان کی رائے کو اہمیت نہ دے کر گھر کے بڑے بزرگوں کی بات کو پتھر پر لکیر قرار دے کر نوجوانوں پر مسلط کردیتے ہیں، اولاد کے احساس و جذبات سے لاعلم رہتے ہیں اور بالآخر یہ سب وجوہ کسی بڑے حادثے یا بدنامی کا پیش خیمہ ہوتے ہیں اور بعدازاں والدین یہ شکوہ کرتے نظر آتے ہیں کہ ہماری بہترین تربیت کے باجود اولاد ہم سے باغی ہے۔ اس کا بہترین اور آسان حل یہ ہے کہ والدین بچپن ہی سے اولاد سے دوستانہ رویہ اختیار کریں، غلطیوں پر سمجھائیں، اپنے اور اولاد کے درمیان ایسا رشتہ قائم کریں کہ وہ اپنی زندگی کا کوئی بھی قدم آپ کے مشورے کے بغیر نہ اٹھائیں۔
اگر وہ نوجوانی کی عمر کو پہنچ گئے ہیں تو گھریلو معاملات میں ان کی رائے کی قدر کریں، اسی دوستانہ ماحول کی بدولت ان کی دوستوں کی محفل (Friends Gathering)کا بھی علم رکھیں، تاکہ بروقت انہیں بری صحبت سے بچاسکیں۔ شادی کی عمر ہونے پر پہلے ان کی رائے کو ترجیح دیں کہ اگر وہ کسی کو پسند کرتے ہیں تو والدین کو آگاہ کریں، پھر والدین کسی رنگ و نسل اور خود ساختہ معیار کو وجہ بنائے بغیر اس لڑکا/لڑکی کی تحقیق کریں اور اگر وہ کسی بھی غلط اور غیر شرعی فعل کا مرتکب نہ ہو تو بلا وجہ اولاد کی پسند مسترد نہ کریں، انہیں تعلیمی اداروں میں بھیجنے کے بعد ان پر اعتماد کریں، ان سے ایسی دوستی قائم کریں کہ وہ کوئی بات آپ سے نہ چھپائیں، انہیں گھریلو ذمے داریوں کے ساتھ مختلف سرگرمیوں میں حصہ لینے کی ترغیب دیں اور ان کی اچھی کارکردگی پر حوصلہ افزائی کریں۔ ان کے ذہنی، جذباتی اور قلبی احساسات کو سمجھیں تاکہ آپ بروقت ان سے اِن تمام موضوعات پر بات چیت کرکے اپنی اولاد کو مطمئن کرسکیں اور اولاد کی طرف سے ہر قسم کی بغاوت اور نافرمانی سے بچ سکیں اور اپنی اولاد کو کوئی بھی سنگین قدم اٹھانے سے محفوظ رکھ سکیں۔
اللّٰہ عزوجل تمام والدین کو اولاد کے حقوق و فرائض ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور سب کی اولاد کو والدین کے حقوق و فرائض ادا کرتے رہنے، ان کی فرمانبرداری اور خدمت گزاری کرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین ثمہ آمین)
(نوٹ: مضمون نگار کی رائے سے وائس آف سندھ کا متفق ہونا ضروری نہیں)