ہجرت کا مثبت اور منفی پہلو

انجینئر بخت سید یوسف زئی
(engr.bakht@gmail.com)
(بریڈفورڈ، انگلینڈ)

اوورسیز پاکستانی آج دنیا کے قریباً ہر خطے میں موجود ہیں اور مختلف معاشروں میں اپنی محنت، قابلیت اور پیشہ ورانہ مہارت کے ذریعے نمایاں مقام حاصل کرچکے ہیں۔ چاہے وہ خلیجی ممالک ہوں، یورپ، شمالی امریکا یا آسٹریلیا، پاکستانی کمیونٹیز ہر جگہ سرگرم نظر آتی ہیں۔ بیرونِ ملک مقیم پاکستانی نہ صرف اپنے خاندانوں کے لیے سہارا ہیں بلکہ وہ مجموعی طور پر پاکستان کی معیشت کے لیے بھی ایک مضبوط ستون کی حیثیت رکھتے ہیں۔ پاکستان سے بیرونِ ملک ہجرت کا رجحان کوئی اچانک یا وقتی عمل نہیں بلکہ یہ ایک طویل تاریخی پس منظر رکھتا ہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد ہی معاشی عدم استحکام، محدود وسائل اور روزگار کے کم مواقع نے لوگوں کو بیرونِ ملک بہتر مستقبل کی تلاش پر مجبور کیا۔ ابتدا میں یہ ہجرت محدود تعداد تک رہی، مگر وقت گزرنے کے ساتھ یہ ایک مستقل رجحان میں تبدیل ہوگئی۔
ساٹھ اور ستر کی دہائی میں مشرقِ وسطیٰ میں تیل کی دریافت اور بڑے پیمانے پر تعمیراتی منصوبوں نے پاکستانی افرادی قوت کے لیے نئے دروازے کھول دیے۔ ان ممالک کو محنتی، سستے اور قابل اعتماد مزدوروں کی ضرورت تھی، جسے پاکستانیوں نے بخوبی پورا کیا۔ لاکھوں پاکستانی اس دور میں خلیجی ممالک گئے اور اپنی محنت سے نہ صرف اپنے خاندانوں بلکہ ملک کا نام بھی روشن کیا۔ اس کے بعد یورپ، امریکا، کینیڈا اور آسٹریلیا جیسے ترقی یافتہ ممالک میں پاکستانیوں کی آمد میں اضافہ ہوا۔ یہاں پاکستانی طلبہ، ڈاکٹر، انجینئر، تاجر اور آئی ٹی ماہرین نے تعلیم اور مہارت کی بنیاد پر اپنی جگہ بنائی۔ وقت کے ساتھ یہ کمیونٹیز مضبوط ہوئیں اور مقامی معیشتوں میں فعال کردار ادا کرنے لگیں۔ ہجرت کے اس بڑھتے ہوئے رجحان کے پیچھے کئی بنیادی وجوہ کارفرما ہیں، جن میں معاشی دباؤ سب سے نمایاں ہے۔ بے روزگاری، کم آمدن، مہنگائی اور روزمرہ اخراجات نے عام شہری کی زندگی کو مشکل بنادیا ہے۔ ایسے حالات میں بیرونِ ملک بہتر تنخواہ اور سہولتیں ایک پُرکشش متبادل بن جاتی ہیں۔ سیاسی عدم استحکام، پالیسیوں میں تسلسل کا فقدان اور کمزور گورننس بھی ہجرت کو بڑھاوا دینے والے عوامل میں شامل ہیں۔ جب ملک میں بے یقینی صورت حال جنم لیتی ہے تو عوام کا اعتماد متزلزل ہوتا ہے۔ ایسے ماحول میں لوگ اپنے اور اپنے بچوں کے محفوظ مستقبل کے لیے ملک سے باہر جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔
اوورسیز پاکستانیوں کی قربانیاں اکثر پسِ پشت ڈال دی جاتی ہیں، حالانکہ وہ اجنبی ممالک میں انتہائی مشکل حالات میں زندگی گزارتے ہیں۔ زبان کی رکاوٹ، ثقافتی فرق، امیگریشن قوانین کی سختی اور بعض اوقات امتیازی سلوک کے باوجود وہ اپنی محنت سے آگے بڑھتے ہیں۔ طویل اوقاتِ کار، محدود سماجی زندگی اور خاندان سے دوری ان کی روزمرہ حقیقت بن جاتی ہے مگر اس سب کے باوجود وہ ہمت نہیں ہارتے اور مسلسل اپنے گھر والوں کے بہتر مستقبل کے لیے جدوجہد کرتے رہتے ہیں۔
بیرونِ ملک سے پاکستان آنے والی ترسیلاتِ زر ملکی معیشت کے لیے مضبوط سہارا ہیں۔ یہ رقوم صرف گھریلو اخراجات یا ذاتی استعمال تک محدود نہیں رہتیں بلکہ ان سے تعلیم، علاج، رہائش اور چھوٹے کاروبار بھی ممکن ہوتے ہیں۔ قومی سطح پر یہ ترسیلات زرمبادلہ کے ذخائر کو مستحکم کرنے، درآمدات کا دباؤ کم کرنے اور مالیاتی بحران سے نکلنے میں مدد فراہم کرتی ہیں۔
اس کے باوجود ہجرت کا ایک تلخ پہلو برین ڈرین کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان، ڈاکٹر، انجینئر اور سائنس دان جب ملک چھوڑ دیتے ہیں تو اس کا اثر براہِ راست قومی اداروں پر پڑتا ہے۔ تعلیمی معیار، تحقیقی صلاحیت اور پیشہ ورانہ مہارت میں کمی آنا ایک ایسا نقصان ہے جس کا ازالہ فوری طور پر ممکن نہیں ہوتا۔
بہت سے اوورسیز پاکستانی وطن سے گہری جذباتی وابستگی رکھتے ہیں، مگر عملی حقائق انہیں مستقل واپسی سے روکے رکھتے ہیں۔ بیرونِ ملک شفاف نظام، وقت کی پابندی، پیشہ ورانہ احترام اور بہتر سہولتیں وہ عوامل ہیں جو انہیں وہیں رہنے پر مجبور کردیتے ہیں۔ یہ ایک ایسا فیصلہ ہوتا ہے جس میں جذبات اور حقیقت کے درمیان مسلسل کشمکش جاری رہتی ہے۔
بیرونِ ملک پیدا ہونے والی نئی نسل کے لیے پاکستان اکثر ایک یاد، کہانی یا سال میں چند ہفتوں کی ملاقات تک محدود ہوکر رہ جاتا ہے۔ وقت کے ساتھ زبان سے دُوری، ثقافتی فرق اور مقامی معاشرے میں مکمل انضمام ان کے رشتے کو کمزور کردیتا ہے۔ یہ صورت حال مستقبل میں قومی شناخت اور ثقافتی تسلسل کے لیے ایک سنجیدہ چیلنج بن سکتی ہے۔ ریاست اگر واقعی اوورسیز پاکستانیوں کو قومی اثاثہ سمجھتی ہے تو اسے اس سوچ کو عملی اقدامات میں بدلنا ہوگا۔ پاسپورٹ، نادرا، جائیداد، قانونی اور عدالتی معاملات میں آسانیاں پیدا کرکے ان کا اعتماد بحال کیا جاسکتا ہے۔ صرف بیانات نہیں بلکہ مؤثر نظام اور تیز انصاف ان کے لیے حقیقی سہولت ثابت ہوسکتے ہیں۔
سرمایہ کاری کے شعبے میں اوورسیز پاکستانیوں کے لیے شفاف، محفوظ اور منافع بخش مواقع پیدا کرنا نہایت ضروری ہے۔ اگر انہیں یہ یقین ہو کہ ان کی محنت کی کمائی محفوظ ہاتھوں میں ہے تو وہ خوش دلی سے صنعت، زراعت، آئی ٹی اور رئیل اسٹیٹ جیسے شعبوں میں سرمایہ لگانے کے لیے تیار ہوسکتے ہیں، جو ملکی معیشت کے لیے طویل المدتی فوائد کا باعث بنے گا۔
ہجرت دراصل ایک علامت ہے، مسئلہ نہیں۔ اصل مسئلہ وہ حالات ہیں جو لوگوں کو وطن چھوڑنے پر مجبور کرتے ہیں۔ جب تک ملک کے اندر روزگار، انصاف، تعلیم اور صحت کے شعبوں میں بنیادی اصلاحات نہیں ہوں گی، اُس وقت تک ہجرت کا رجحان کم نہیں ہوسکے گا۔
یہ حقیقت بھی تسلیم کرنا ہوگی کہ صرف بیرونِ ملک جانے کو کامیابی کا معیار سمجھ لینا ایک غلط سماجی سوچ ہے۔ کامیابی وہ ہے جو عزت، تحفظ اور خوداعتمادی کے ساتھ اپنے ملک میں حاصل کی جائے۔ اس سوچ کی تبدیلی کے لیے تعلیمی اداروں، میڈیا اور سماجی قیادت کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
پاکستان نوجوان آبادی پر مشتمل ایسا ملک ہے جس میں بے شمار صلاحیتیں موجود ہیں۔ اگر ان نوجوانوں کو ہنر، مواقع اور اعتماد فراہم کیا جائے تو وہ ملک کے اندر ہی معاشی ترقی کی نئی راہیں کھول سکتے ہیں۔ یہ وہ سرمایہ ہے جسے ضائع ہونے سے بچانا قومی ذمے داری ہے۔ اوورسیز پاکستانیوں کو صرف ترسیلاتِ زر بھیجنے والی مشین سمجھنا ایک محدود اور غیر منصفانہ رویہ ہے۔ وہ علم، تجربہ، نظم و ضبط اور عالمی سوچ کے حامل افراد ہیں، جنہیں قومی ترقی کے عمل میں فعال شراکت دار بنایا جانا چاہیے۔
اگر ریاست، ادارے اور معاشرہ مل کر سنجیدگی، دیانت اور طویل المدتی وژن کے ساتھ کام کریں تو ہجرت ایک مجبوری کے بجائے ایک انتخاب بن سکتی ہے۔ تب پاکستانی دنیا میں جہاں بھی ہوں، وہاں وقار کے ساتھ رہتے ہوئے بھی اپنے وطن سے مضبوط اور مثبت تعلق قائم رکھ سکیں گے اور پاکستان حقیقی معنوں میں ایک پُرکشش اور باوقار وطن بن سکے گا۔

MigrationOverseas PakistanisPakistanPositive and negative aspects