نادیہ اشرف کی خودکشی، تصویر کا دوسرا رخ

پنجوانی سینٹر فار مالیکیولر میڈیسن اینڈ ڈرگ ریسرچ (پی سی ایم ڈی) میں پی ایچ ڈی کی طالبہ نادیہ اشرف کی خودکشی کے بارے میں اوّلین ”خبریں“ ہمیں سوشل میڈیا سے ملیں۔ ان ”خبروں“ سے جہاں یہ معلوم ہوا کہ نادیہ اشرف کا پی ایچ ڈی گزشتہ پندرہ سال سے جاری تھا اور اب تک مکمل نہیں ہوسکا تھا، وہیں یہ بھی پتا چلا کہ انہیں ان کے پی ایچ ڈی سپروائزر، پروفیسر ڈاکٹر اقبال چوہدری کی جانب سے ہراسانی کا سامنا تھا۔
توجہ طلب بات یہ ہے کہ ایسی تقریباً تمام ہی سوشل میڈیا پوسٹیں ایک دوسرے کی نقل تھیں … اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ”جسٹس فار نادیہ“ اور ”جسٹس فار نادیہ اشرف“ جیسے ہیش ٹیگ سوشل میڈیا پر دکھائی دینے لگے۔یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ نادیہ اشرف کی خودکشی کو قتل قرار دینے والے اور تعلیمی اداروں میں ہراسانی کا واویلا کرنے والے تقریباً تمام لوگ نہ نادیہ اشرف سے اور نہ ہی ڈاکٹر اقبال چوہدری سے واقف ہیں۔
سوشل میڈیا کا چلن یہی ہے کہ جو ہیش ٹیگ ”پاپولر“ ہوجائے، اسے ہر ایسا شخص اپنی پوسٹ میں استعمال کرتا ہے جو چاہتا ہو کہ اس کی پوسٹ دوسروں کی ”فِیڈز“ میں دکھائی دے اور لوگ اس پوسٹ کی طرف زیادہ متوجہ ہوسکیں۔ نادیہ اشرف کی خودکشی والے معاملے میں بھی یہی ہوا۔
لیکن بات صرف یہیں پر نہیں رکی بلکہ سوشل میڈیا صارفین نے (ایک دوسرے کی نقل کرتے ہوئے اور ”کاپی پیسٹ کلچر“ پر کاربند رہتے ہوئے) پروفیسر ڈاکٹر اقبال چوہدری کیلیے ایسے بیہودہ اور نازیبا الفاظ تک استعمال کیے جو یہاں لکھے نہیں جاسکتے۔
جہاں تک نادیہ اشرف کا معاملہ ہے تو مختلف ذرائع (بشمول انڈیپنڈنٹ اُردو اور یوٹیوب چینل ڈیلی نیوز ٹی وی) سے یہی معلوم ہوا ہے کہ بہاولپور سے تعلق رکھنے والی اس 39 سالہ پی ایچ ڈی طالبہ کے والد میرین انجینئر تھے۔ وہ بہت لائق تھیں جنہوں نے بہاولپور کی اسلامیہ یونیورسٹی سے ڈی فارم (ڈاکٹر آف فارمیسی) میں نمایاں کامیابی حاصل کرنے کے بعد مزید اعلیٰ تعلیم کیلیے جامعہ کراچی کے تحقیقی ادارے ”پنجوانی سینٹر فار مالیکیولر میڈیسن اینڈ ڈرگ ریسرچ“ (پی سی ایم ڈی) میں داخلے کی درخواست دے دی۔

ان کی قابلیت دیکھتے ہوئے انہیں فوراً ہی وہاں ”ایم فل لیڈنگ ٹو پی ایچ ڈی“ میں بطور تحقیقی طالب علم اینرول کرلیا گیا۔ واضح رہے کہ اس نوعیت کی اینرولمنٹ میں کوئی بھی طالب علم پہلے اپنے تحقیقی کام کا آغاز ایم فل کی سطح سے کرتا ہے جسے بعد ازاں (طالب علم کی تحقیقی پیش رفت دیکھتے ہوئے) پی ایچ ڈی تک بڑھا دیا جاتا ہے۔

نادیہ اشرف 2007 میں ڈاکٹر امین سوریا کی زیرِ نگرانی ایم فل لیڈنگ ٹو پی ایچ ڈی میں اینرول ہوئیں اور انہوں نے سرطان (کینسر) کے سالماتی پہلوؤں پر تحقیق کا آغاز کیا جو دنیا بھر میں ایک مشکل تحقیقی موضوع قرار دیا جاتا ہے۔

البتہ، ڈاکٹر امین سوریا کے وہاں سے جانے کے بعد نادیہ اشرف نے ڈاکٹر اقبال چوہدری کی نگرانی میں اپنی تحقیق جاری رکھی۔ اس دوران ادارے نے انہیں متعلقہ تحقیق کے لئے درکار مزید تربیت کی غرض سے اپنے خرچ پر فرانس بھجوایا جہاں وہ چند ماہ مقیم رہیں۔

یہ بات بھی یاد رہے کہ نادیہ اشرف کو گھریلو محاذ پر کچھ سنگین مسائل درپیش تھے۔ انڈیپنڈنٹ اردو کی نامہ نگار، رمیشہ علی کی رپورٹ کے مطابق، نادیہ کے والد 2007 میں لاپتا ہوگئے اور بہت تلاش کرنے پر بھی نہ مل سکے۔ اپنے والد سے بہت قریب ہونے کی وجہ سے نادیہ کو اس سانحے کا شدید صدمہ ہوا۔ علاوہ ازیں، اب ان پر تحقیق کے ساتھ ساتھ گھریلو کفالت کی ذمہ داری بھی آن پڑی تھی۔

یہ ذمہ داری پوری کرنے کیلیے نادیہ نے کراچی کی ایک نجی جامعہ میں بطور لیکچرار ملازمت کرنے کے علاوہ ایک اور نجی ادارے (غالباً کسی اسپتال) میں ”اونکو فارماسسٹ“ (اونکولوجی کیئر فارماسسٹ) کے فرائض بھی انجام دیئے۔ بتاتا چلوں کہ ”اونکو فارماسسٹ“ وہ ماہر افراد ہوتے ہیں جو ”کیموتھراپی“ (کینسر کے کیمیائی علاج) میں استعمال ہونے والے مادّوں کی درست تناسب سے تیاری کرتے ہیں جبکہ بعض اوقات وہ کینسر کے مریضوں کی دیکھ بھال اور انہیں دی جانے والی دواؤں کی درست مقدار/ خوراک کا تعین بھی کرتے ہیں۔

والدہ اور خود اپنی طبیعت کی خرابی، مالی پریشانیوں اور دیگر خانگی معاملات کی بناء پر وہ اپنی پی ایچ ڈی کی تحقیق کو زیادہ وقت نہیں دے سکیں اور یہ کام تاخیر در تاخیر کا شکار ہوتا چلا گیا۔ اس بات کا تذکرہ خود انہوں نے جامعہ کراچی کے ”بورڈ آف ایڈوانسڈ اسٹڈیز اینڈ ریسرچ“ (BASR) کے رجسٹرار کے نام لکھی گئی درخواست میں کیا تھا جس پر اوّلین تاریخ 6 اکتوبر 2017 درج ہے۔

اس درخواست میں نادیہ اشرف نے اپنے تمام مذکورہ بالا مسائل اور مصروفیات کا ذکر کرنے کے بعد بی اے ایس آر سے گزارش کی تھی کہ تاخیر ہوجانے کے باوجود، انہیں پی ایچ ڈی تھیسس جمع کرانے کی اجازت دی جائے۔ اس درخواست پر ڈاکٹر اقبال چوہدری کے ہاتھ سے لکھی ہوئی Strongly recommended کی عبارت بھی موجود ہے۔

انڈیپنڈینٹ اردو میں شائع شدہ خبر کے مطابق، نادیہ اشرف کے بھائی شہباز نے بتایا کہ وہ اپنے گھریلو حالات اور پی ایچ ڈی، دونوں کی وجہ سے سخت پریشان رہتی تھیں اور اسکیزوفرینیا (شیزوفرینیا) میں بھی مبتلا ہوچکی تھیں جس کے باعث انہیں کچھ عرصہ ناظم آباد میں واقع ”کراچی نفسیاتی اسپتال“ میں بھی داخل رہنا پڑا تھا۔ علاوہ ازیں، شدید مایوسی کے عالم میں وہ 2018 میں اپنی کلائیاں کاٹ کر خودکشی کی کوشش کرچکی تھیں، جب انہیں یہ پتا چلا کہ ان سے کم نمبر لینے والی ایک طالبہ کو پی ایچ ڈی کی ڈگری مل گئی ہے جبکہ خود نادیہ کا پی ایچ ڈی 2016 میں مکمل ہوجانا چاہیے تھا۔

اسی خبر کے مطابق، نادیہ اشرف کے بھائی شہباز کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ اپنے پی ایچ ڈی سپروائزر، پروفیسر ڈاکٹر اقبال چوہدری کو اپنے والد کی طرح سمجھتی تھیں اور ان کا بے حد احترام کرتی تھیں۔ دیگر ذرائع اس بات کی تصدیق کرنے کے علاوہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ وہ ڈاکٹر اقبال کے خلاف بولنے والوں سے لڑ پڑتی تھیں۔

یہاں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ عام تاثر کے برعکس، سائنسی مضامین میں پی ایچ ڈی کرنا بہت مشکل کام ہوتا ہے۔ سادہ اور آسان الفاظ میں یوں سمجھ لیجیے کہ پی ایچ ڈی کرنا اپنے آپ میں ایک کُل وقتی مصروفیت ہے۔ اگر اسے جُز وقتی طور پر انجام دیا جائے تو بڑھاپے کی دہلیز پر پہنچ کر بھی پی ایچ ڈی ادھورا ہی رہ جاتا ہے۔
ّّّّّّّّّّّّّّّ
پروفیسر ڈاکٹر اقبال چوہدری کا نام پاکستان کے سائنسی حلقوں میں بہت ادب و احترام سے لیا جاتا ہے، اپنے تحقیقی کاموں کی بدولت وہ تمغہ امتیاز، ستارہ امتیاز اور ہلالِ امتیاز کے علاوہ تھرڈ ورلڈ اکیڈمی آف سائنسز ایوارڈ، خوارزمی انٹرنیشنل ایوارڈ اور ای سی او ایوارڈ جیسے بین الاقوامی اور علاقائی اعزازات بھی اپنے نام کرچکے ہیں۔

دیگر اعزازات و انعامات کی فہرست بہت طویل ہے لیکن اتنا بتانا بہرحال ضروری ہے کہ ڈاکٹر صاحب اب تک نیچرل پروڈکٹ کیمسٹری کے شعبے میں 68 کتابیں تحریر کرچکے ہیں۔ اسی موضوع پر 40 کتابوں میں آپ کے لکھے ہوئے ابواب شامل ہیں۔ آپ کے شائع شدہ تحقیقی مقالہ جات کی تعداد 1,027 ہے جبکہ 57 عالمی پیٹنٹس بھی ڈاکٹر صاحب کے نام پر ہیں، جن میں 51 امریکی پیٹنٹس بھی شامل ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی نگرانی میں اب تک 84 طالب علم اپنا پی ایچ ڈی مکمل کرچکے ہیں، جن میں اچھی خاصی تعداد خواتین کی ہے۔

ایچ ای جے ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف کیمسٹری، جامعہ کراچی سے 1987 میں پی ایچ ڈی کرنے کے بعد سے لے کر اب تک، زینہ بہ زینہ طے کرتے ہوئے، وہ ترقی کی بلندی پر پہنچ چکے ہیں۔

چند ماہ پہلے ہی انہیں حکومتِ پاکستان کی جانب سے ”کو آرڈی نیٹر جنرل کومسٹیک“ (COMSTECH) مقرر کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ ”کومسٹیک“ عالمِ اسلام میں سائنس و ٹیکنالوجی کے حوالے سے تعاون کی تنظیم ہے جس میں 53 مسلم ممالک شامل ہیں۔ کومسٹیک کا صدر دفتر اسلام آباد میں واقع ہے جبکہ ”کو آرڈی نیٹر جنرل“ اس تنظیم کا اہم ترین عہدہ ہوتا ہے۔ قبل ازیں یہ عہدہ پروفیسر ڈاکٹر عطاء الرحمان (ایف آر ایس) کے پاس تھا، جو ڈاکٹر اقبال چوہدری کے استاد بھی ہیں۔

اب ذرا سوچیے کہ ایک ایسا شخص جس نے برسوں کی کڑی محنت اور ریاضت کے بعد ایک ایسے شعبے میں نمایاں عالمی مقام حاصل کیا ہو کہ جس میں پاکستانیوں کی تعداد ویسے ہی بہت کم ہے، تو کیا ایسے شخص کے خلاف سازشیں نہیں کی جارہی ہوں گی؟نادیہ اشرف کی خودکشی کی آڑ میں ڈاکٹر اقبال چوہدری کا قتل کیا گیا ہے۔ کردار کا قتل، عزت کا قتل، باپ جیسے ایک شفیق استاد کی حرمت کا قتل۔

دیگر اداروں کی طرح پاکستان کے سائنسی اداروں میں بھی سیاست اور رقابت کا چلن بہت زیادہ ہے۔ یہاں بھی بہت سے لوگ صرف اپنی مدتِ ملازمت کی بنیاد پر ترقی کے خواہش مند ہوتے ہیں؛ لیکن اگر ان کی نظروں کے سامنے کوئی کم عمر شخص اپنی قابلیت اور خداداد صلاحیت کے بل بوتے پر زیادہ ترقی کر جائے تو وہ فوری طور پر اس کے خلاف سازشیں شروع کردیتے ہیں۔

ان حالات میں اگر کوئی ایسی خبر سامنے آئے جسے معمولی ردّ و بدل کے ساتھ اس ترقی کر جانے والے شخص کے خلاف استعمال کیا جاسکے، تو یہ عناصر ذرا بھی دیر نہیں لگاتے اور افواہوں کا بازار گرم کردیتے ہیں۔ سوشل میڈیا نے ان کا کام اور بھی آسان کردیا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ نادیہ اشرف کی خودکشی کا معاملہ مکمل غیر جانبداری اور شفافیت کے ساتھ کھنگالنے کیلیے معتبر و معزز افراد پر مشتمل کمیٹی قائم کرنی چاہیے، لیکن اگر یہ کمیٹی بھی ڈاکٹر اقبال چوہدری کو ان رکیک الزامات سے بری کردے تو کیا سوشل میڈیا کے سماجی ٹھیکیدار ان سے معذرت کریں گے؟

جس انسان نے برسوں نہیں بلکہ عشروں کی محنت سے عزت کمائی ہو، اس کیلیے عزت ہی سب کچھ ہوتی ہے۔

اب کوئی بھی ڈاکٹر صاحب کی صفائی میں یہ دلیل پیش کرتا رہے کہ آئی سی سی بی ایس میں پی ایچ ڈی کرنے والے طالب علموں میں سے 72 فیصد لڑکیاں / خواتین ہیں اور اس ادارے میں ہراسانی کو بہت سختی سے کنٹرول کیا جاتا ہے، یا یہ کہتا رہے کہ 28 سالہ واقفیت کے دوران اُس نے ڈاکٹر صاحب کے کردار میں کوئی غلط بات نہیں دیکھی، یا یہ کہ وہ اپنے تمام شاگردوں کو اپنی اولاد سمجھتے ہیں، تب بھی عوام کے ذہنوں میں پیدا ہو جانے والا شک دور نہیں ہوگا۔

ڈاکٹر اقبال چوہدری پر بھی یہی سانحہ گزر رہا ہے۔ فیس بُک، ٹوئٹر اور یوٹیوب جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی کمانوں سے نکلنے والی پوسٹس، ٹویٹس اور ویڈیوز کے زہریلے تیر پہلے ہی ڈاکٹر صاحب کے کردار، عزت اور ایک استاد کی حیثیت سے حرمت کا قتل کرچکے ہیں۔

ایسے میں اگر کوئی ڈاکٹر صاحب کا دفاع کرنے کی کوشش کرے تو اسے ”غیر جانبدار رہیے“ کا مشورہ دے دیا جاتا ہے۔ لیکن جو لوگ ڈاکٹر اقبال چوہدری کے خلاف سوشل میڈیا پر زہر اگلتے پھر رہے ہیں اور ”حق و صداقت“ کے دعویدار بھی ہیں، ان سے یہ نہیں پوچھا جاتا کہ جو کچھ وہ اتنے وثوق سے بیان کررہے ہیں اس کی کیا سند ہے؟