نااہلوں کا قبرستان

ممتازعباس شگری

آپ نے بے شک دنیا دیکھی ہوگی، لیکن آپ کے ان دیکھے ہوئے ایام میں اسکردو بلتستان کی سردشا میں، دریاشگرکی سریلی آوازیں، کھرمنک کے فلک بوس آبشاروں کے نظارے، خپلوچقچن مسجد کے منارے اورروندوکے پہاڑوں پربنے ہوئے گھروں کی خوبصورتی شامل نہیں توسمجھ لیجئے آپ کے سیروتفریح کے لمحے ابھی نامکمل ہے، آپ کوایک دن ہی سہی شنگریلا اسکردوکی دیدار کرنے کا موقع ملے توآپ اپنی زندگی پررشک کریں گے۔
میری شدید خواہش ہے کہ جب میں اس جنت نظیرزمین شنگریلا کے دل میں داخل ہوں توہواکی ہلکی لہریں لہراتی ہوئی میری آنکھوں کوٹھنڈک پہنچاتے ہوئے اپنی راہ لے لیں، گھڑی کی سوئی ایک لمحے کے لیے ہاں ایک لمحے کیلئے ہی سہی رک جائیں، یہ دن اتنے لمبے ہوجائیں کہ میرے لب کے آخری سرے سے یہ آس نکلے، کاش یہ سورج بھی اپنے ڈھلنے کی جگہ کی طرف رخت سفرباندھ لیتا، تب تک میں اس کے مچھلیوں کی امن گاہ بنی ہوئی جھیل کے نیلے پانی کواپنی آنکھوں کے روشنیوں سے دیکھ کر ٹھنڈک پہنچاتے ہوئے دل کے کو نے کونے میں اس کے ہر زرے کی تصویر نقش کرلیتا، میری خواہش ہے کہ ڈھلتے سورج کے نظارے اور چڑیوں کے گھونسلوں کی طرف واپسی کے آوازکے ساتھ ساتھ اس جھیل کے کنارے نیلے آسمان میں ستاروں کی آمد کا نظارہ کرتے ہوئے ہاتھ میں چائے کی مگ پکڑ کر کرسی کے پائے کواپنے پرسکون بدن کی قوت سے آہستہ آہستہ ہلاتے ہوئے رات کی تاریکیاں چاروں سمیت پھیل جائے یوں میں ہمیشہ کیلئے نیند کی آغوش میں چلے جائیں اور رات کی تاریکی میں چانداس ندی سے اپنے آپ کوغسل دے کرواپسی پرگامزن ہونے کے بعدصبح کے روشنی کی پہلی کرن فلک بوس پہاڑکی چوٹی کے سرے کوچیرتے ہوئے میری طرف مائل ہو تومیرا بدن شنگریلاکی زمین کے اندراس لہلہاتے جھیل کے کنارے کِھلتے ہوئے گلاب کے بکھرے ہوئے پتیوں کی مہلک سونگ رہے ہو۔

مجھے پچھلے سال زندگی میں پہلی بارآسمان کی چھت پرجانے کا موقع بھی ملا ،دوستوں کے ہمراہ صبح کے سورج کی کرنوں کے ساتھ تیارہوکرروانہ ہوادوگھنٹے کی مسافت طے کرتے کرتے دیوسائی ٹاپ پرقدم رکھنے ہی والا تھا، میں اس وسیع وعریض پھولوں سے سجی میدان کواپنی آنکھوں سے دیکھنے کیلئے اس لیے بے تاب تھا، کیوں کہ میں اسے صرف کتابوں اورتصویروں کی حد تک جانتاتھا، بل کھاتے ہوئے سٹرکوں کو بمشکل ختم کرکے جب ہماری گاڑی دیوسائی ٹاپ پر پہنچی تو میری یادیں جو میں نے کتابوں میں پڑھی تھی۔ تازہ ہوگی، اوپرآسمان اورنیچے ہرے پھولوں سے لدے ہوئے میدان کو دیکھ کر زندگی پر رشک کرنے پر مجبورہ وگیا۔

دیوسائی کاوسیع وعرض میدان بھی اپنی وجود میں ایک الگ اور منفرد دنیا ہے، وہاں کے سرسبز میدان میں رنگ برنگے پھول کی کلیوں سے پھیلی ہوئی خوشبو دیوسائی کی قدر میں مزید اضافہ کرتا ہے، اس میدان کے وسط سے بہنے والے نالے کا نیلا پانی دیکھ کرایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا یہاں سے لعل وجواہربہہ رہاہے، مگرافسوس کی بات یہ کہہ اس لعل وجواہرکاکسی کاکوئی فائدہ نہیں، یہ پانی اپنی سریلی آوازوں کے ساتھ دیوسائی کاسرسبزوسیع میدان کوضرب تلوارکی طرح چیرتے ہوئے انڈیامیں داخل ہوتاہے،ہم صرف اس کانظارہ ہی کرسکتاہے اوربس۔

آپ یقین کرلیں پاکستان کاشماران ملکوں میں ہوتاہے جہاں پانچ پانچ دریابہنے کے باوجودشہروں کوپانی بھی میسرنہیں اوربجلی بھی،لوگ آج بھی پانی اوربجلی کیلئے ترس رہے ہیں،آپ کراچی سے لے کرکے ٹوتک جہاں بھی دیکھیں لوگ پانی اوربجلی کیلئے ترس رہے ہوتے ہیں،میں یہاں گفتگوکوکچھ لمحے کیلئے اسکردومیں روکناچاہتاہوں،اسکردوپاکستان کاواحدشہرہے جہاں پرگرمیوں میں چھ سے آٹھ گھنٹے جبکہ سردیوں میں پورے چوبیس چوبیس گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ ہوتی ہے،حالانکہ دریائے سندھ کابہاوبھی اسکردوشہرکے بغل سے ہو کر گزرتاہے۔اسے کے باوجود لوگ بجلی کیلئے ترس رہے ہوتے ہیں۔

آپ انتہا دیکھیں اسکردوکی یخ بستہ ہواؤں اورخون جمادینے والی سردی میں انتظامیہ کاکمال کسی سے ڈھکا چھپا نہیں کہ وہ ہیٹر اور گیزر کے استعمال پر قدغن پر مصر ہے۔ میری حکومت سے اپیل ہے ان صاحبان عقل کوخصوصی ایوارڈ سے نوازاجائے۔ ایسے اہلکاروں کوکھونا قوم کی بدبختی کاسبب بن سکتاہے۔
الیکٹرک ہیڑزاورگیزرکیوں اورکس لیے بنائے جاتے ہیں، کیا یہ گرمیوں میں استعمال کرنے کیلئے بناتے ہیں؟مجھے امید ہے یہ حال صرف شہراسکردوکا نہیں بلکہ پورے پاکستان کا ہو گا جہاں سردیوں میں ہیٹرزضبط کرکے لوڈشیڈنگ کراتے ہیں توگرمیوں میں بجلی بندکرکے عوام کوستاتے ہیں، میری حکومت پاکستان سے اپیل ہے، آپ ملک میں بجلی کی پیداوارکوبڑھانے کی بجائے سردیوں میں ہیٹراور گیزضبط کروالیں،گرمیوں میں پنکھے اورآئرکنڈیشن استعمال کرنے والوں کے خلاف مقدمہ درج کرواکرجیلوں میں ڈال دیں،یوں آپ کی حکومت بھی بچے گی ملک میں لوڈشیڈنگ بھی نہیں ہوگی۔
آپ کسی دن زندگی کے چند لمحوں میں سے ایک لمحہ نکال کربلتستان ریجن کادورہ ضرورکرلیں،آپ کویقین نہیں آئے گاقدرت نے اس خطے کوکون کون سی عظیم نعمتوں سے نوازاہے، دنیاکی دوسری بلندترین چوٹی جوکہ شگرمیں واقع ہے، ہرسال ہزاروں ملکی و غیرملکی سیاح اس طرف مائل ہوتے ہیں یوں ملک کی آمدنی میں بھی خاطرخواہ اضافہ ہوتاہے، دیوسائی کاوسیع وعریض میدان اوراس کے وسط میں نیلے پانی کا نالہ دیکھ کرزندگی کا ہرلمحہ وہاں گزارنے کودل کرے گا، شنگریلا اسکردومیں گزراہواایک دن بھی آپ اپنی زندگی میں کبھی نہیں بھول پائیں گے، لیکن یادرکھیے گابجلی کی لوڈشیڈنگ، پانی کی قلت اورسڑکوں کی حالت دیکھ کرآپ کے چاروں شانے چت ہوکررہ جائیں گے، انتظامیہ کی نااہلی آپ کوہردروازے پر، ہرسٹرک پر، ہرگلی میں اورہربازارمیں نظرآئے گی۔
حکومت چاہے تودیوسائی سے شتونگ نالہ پانی کارخ موڑسکتی ہے،اگریہ پانی سدپارہ جھیل میں داخل ہوجائے تواسکردوخودکفیل ہوجائے گا،لوگ انتظامیہ اورحکومت کی کاکردگی پررشک کریں گے،لیکن انتظامیہ غافل ہے۔ بہ ظاہر حکومت کے پاس اس کوزیراستعمال لانے کی کوئی پالیسی نہیں،حکومت چاہتی توبہت کچھ کرسکتی ہے،حکومت لوگوں کوپانی اوربجلی کی سہولت ہی دے دیں،لوگ جھولی پھیلاپھیلاکردعائیں دیں گے۔
مجھے خدشہ ہے کہ حکومت ایساکوئی قدم نہیں اٹھائے گی، جس سے شہریوں کوفائدہ ہو،یہ صرف سردیوں اورگرمیوں کاانتظارکرتے رہیں گے، تاکہ سردیوں میں ہیٹراورگرمیوں میں پنکھے ضبط کرواسکیں۔