ینگون: فوجی حکومت نے میانمار میں مارشل لا کے خلاف جدوجہد کرنے والے سیاسی رہنماؤں اور مزاحمت کاروں کے گڑھ پر فضائی حملے کیے، جس کے نتیجے میں 50 سے زائد افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے۔
بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق میانمار کی فوج کے لڑاکا طیاروں اور ہیلی کاپٹرز نے ینگون کے مضافاتی علاقے پر بم باری کی۔ یہ قصبہ ملک میں دو سال قبل کی گئی فوجی بغاوت کے خلاف مزاحمت کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔
الجزیرہ کے نمائندے نے بتایا کہ یہ فضائی حملے اس وقت ہوئے جب مقامی رہائشی ایک انتظامی دفتر کے افتتاح کے لیے بڑی تعداد میں جمع تھے۔
کہا جارہا ہے کہ ملک میں فوجی بغاوت کے نتیجے میں قائم ہونے والی فوجی حکومت کے خیال میں یہ اجتماع حکومت مخالف عسکری تنظیم کا تھا، جسے کچلنے کے لیے فضائی کارروائی کی گئی۔
فوجی حکومت کی جانب سے اجتماع پر فضائی حملے اور اس میں ہونے والی ہلاکتوں سے متعلق کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔
مارشل لا حکومت میں ذرائع ابلاغ پر پابندی اور سنسرشپ کے باعث مستند معلومات کا حصول مشکل ہوگیا ہے۔
تاہم زخمیوں میں سے ایک نے بین الااقوامی میڈیا کے نمائندے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ فوج کے فضائی حملوں میں 50 سے زائد افراد ہلاک ہوئے، جن میں 15 خواتین اور 10 کے قریب بچے بھی شامل ہیں۔
اسی طرح امدادی کاموں میں مصروف ایک رضاکار نے الجزیرہ کے نمائندے کو بتایا کہ اس نے کم سے کم 40 لاشوں کو اسپتال منتقل کیا ہے جب کہ لاشوں کی منتقلی کا سلسلہ ابھی جاری ہے۔
خیال رہے کہ میانمار کی فوج نے یکم فروری 2021 کو جمہوری حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کرکے ملک کی حکمراں آنگ سان سوچی سمیت وزرا اور کئی سیاسی رہنماؤں کو گرفتار کرلیا گیا تھا۔
میانمار میں فوجی بغاوت کے خلاف ہونے والے مظاہروں کو طاقت سے کچلا گیا جس میں 3 ہزار کے قریب مظاہرین اور 47 پولیس اہلکار ہلاک اور 5 ہزار زخمی ہوئے جب کہ انسانی حقوق کے ایک سرگرم کارکن سمیت 6 افراد کو پھانسی دی گئی۔
فوجی حکومت نے اپنے اقتدار کو مضبوط تر کرنے کے لیے مزاحمت کاروں کو کچلنے کے لیے ان کے علاقوں پر دو سال کے دوران 600 سے زائد فضائی حملے کیے ہیں جن میں سب سے زیادہ ہلاکت خیز فضائی کارروائی آج ہوئی ہے۔
میانمار میں ہنگامہ آرائی، مظاہروں، فوجی آپریشن اور جبری قوانین کے باعث دس لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہوچکے ہیں اور مغربی ممالک نے حکمران جرنیلوں کے خلاف پابندیاں عائد کردی ہیں۔