کراچی: چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے شہر قائد سے تمام بل بورڈز فوری ہٹانے کا حکم دیتے ہوئے ریمارکس دیے کہ سندھ میں قانون نام کی کوئی چیز نہیں۔
سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے غیر قانونی بل بورڈز سے متعلق کیس پر سماعت کی، کمشنر کراچی اور میئر وسیم اختر عدالت میں پیش ہوئے۔
جسٹس گلزار احمد نے اداروں کی ناقص کارکردگی پر شدید اظہار برہمی کا اظہار کیا۔ دوران سماعت انہوں نے ریمارکس دیے کہ آپ لوگوں نے شہر کا حلیہ بگاڑ دیا ہے، سب سے زیادہ بل بورڈز رہائشی عمارتوں پر لگے ہیں۔ شارع فیصل پر عمارتیں دیکھیں اشتہار ہی اشتہار لگے ہیں، وہاں لوگ کیسے جیتے ہوں گے۔ حکومت کا کام ہے کہ بلڈنگ پلان پر عمل کرائے، لیکن یہاں حکومت نام کی کوئی چیز نہیں، اگر کسی کے پاس پیسے ہیں تو وہ سب کر لیتا ہے۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بچے گٹر کے پانی میں روز ڈوب رہے ہیں، میری اپنی گاڑی کا پہیہ بھی گٹر میں پھنس گیا، کون ذمے دار ہے اس صورت حال کا؟، کون ذمے دار ہے ٹوٹی سڑکوں، کچرے اور اس تعفن کا، لگتا ہے صوبائی اور لوکل گورنمنٹ کی شہر سے دشمنی ہے، کراچی کو بنانے والا اب تک کوئی نہیں آیا، میئر کہتے ہیں اختیار نہیں، تو گھر بیٹھو، کیا حال کیا ہے آپ نے میئر صاحب اس کراچی کا؟ وزرا بڑی بڑی گاڑیوں میں گھومتے ہیں، وزیراعلیٰ صرف ہیلی کاپٹر پر چکر لگاتے ہیں، کرتے کچھ نہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کراچی میں بجلی کا بحران بھی بدترین ہوگیا ہے، سب ایک دوسرے کو مارنے پر تلے ہیں، روز آٹھ دس لوگ مر رہے ہیں اور نیپرا کچھ نہیں کررہی، ہر فرد جو جاں بحق ہوتا ہے محکمہ بجلی کے خلاف اس کا مقدمہ درج ہونا چاہیے اور نام ای سی ایل میں ڈالیں۔