مودی سرکار کی چھتر چھایہ میں ’’شائننگ انڈیا‘‘ کے نام نہاد نعرے بلند کرنے والے پڑوسی ملک کی اصلیت لگ بھگ پوری دُنیا پر عیاں ہوچکی ہے۔ سیکولرازم کے غبارے سے ہوا نکلتے روزانہ ہی ساری دُنیا دیکھتی ہے۔ انتہا پسندی کے بدترین مظاہرے بھارت کے چہرے پر بدنما داغ کی مانند ہیں، انتہاپسند ہندو اس حوالے سے آئے دن نت نئی نظیریں قائم کرکے بھارتی بدنامی میں اپنا بھرپور حصّہ ڈالتے ہیں۔ یہ تو سبھی جانتے ہیں بھارت اقلیتوں کے لیے انتہائی تنگ زمین ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہاں ہندو اکثریت کے علاوہ کسی کو انسان تصور ہی نہیں کیا جاتا، سب سے زیادہ نشانے پر مسلمان ہی رہتے ہیں، تاہم دیگر اقلیتوں کے لیے بھی وہاں حالات کسی طور سازگار نہیں ٹھہرائے جاسکتے بلکہ مصائب و آلام اُنہیں چاروں اطراف سے اپنے نرغے میں لیے رکھتے ہیں۔
بھارتی کسان (جن میں سے زیادہ تر سِکھ مذہب سے متعلق ہیں) ملکی غذائی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے شبانہ روز محنتیں کرتے ہیں، وہ بے چارے سو روز سے مودی حکومت کے ظالمانہ اور کسان دشمن قوانین کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ وہ اپنے مطالبات کے حق میں پُرامن مظاہرے کررہے ہیں، اُن کے ساتھ ریاستی جبر و تشدد کی راہ کئی بار اختیار کی جاچکی ہے۔ بھارت کی یہ کسان تحریک عالمی سطح پر بھی خاص توجہ کا مرکز بنی ہے۔ بعض ممالک کے حکومتی ذمے داران سمیت بہت سے ملکوں کی اہم شخصیات اس حوالے سے بھارتی کسانوں کی حمایت میں بیانات دے چکی ہیں۔ بھارت کے ان محسنوں کا جب یہ حال ہے تو دیگر اقلیتیں کن کن مشکلات سے نبردآزما ہوتی ہوں گی، اس کا اندازہ بخوبی کیا جاسکتا ہے۔
مسلمان تو تقسیم ہند کے کچھ عرصے بعد سے ہی بھارت میں انتہائی کسمپرسی کی زندگی بسر کررہے ہیں۔ انتہاپسند حکومت اور اُس کے پروردہ دہشت گردوں نے اُن کے لیے عرصۂ حیات تنگ کیا ہوا ہے۔ اس حوالے سے آئے روز اطلاعات میڈیا کے ذریعے سامنے آتی رہتی ہیں۔ کبھی کسی مسلمان لڑکی پر زبردستی شادی کرنے کے لیے دبائو ڈالا جاتا ہے، وہ انکار کرے تو اُسے نشان عبرت بنادیا جاتا ہے، کبھی کسی مسلمان گھرانے پر گائے کا گوشت کھانے کا الزام لگاکر تشدد کی بدترین نظیر قائم کی جاتی ہے۔ کبھی کسی مسلم گھرانے کو جبر اور تشدد سے ہندو مذہب اختیار کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ غرض مسلمانوں پر ظلم و تشدد کا کون سا حربہ ہے، جو بھارت میں اختیار نہیں کیا جاتا۔ قانون و انصاف کے ادارے بھی مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک میں اپنا حصّہ بقدر جثہ ڈالتے ہیں۔ وہ اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ میں ناکام نظر آتے ہیں۔ بہت سے معاملات ہیں، جن میں اُن کا پلڑا سچ کے بجائے ہندو اکثریت کے حق میں رہا ہے۔ اس ضمن میں ڈھیروں واقعات بطور مثال پیش کیے جاسکتے ہیں۔ اب بھارت کے انتہاپسندوں کا نیا نشانہ ممبئی میں ’’کراچی‘‘ کے نام پر قائم ایک بیکری بنی ہے۔تقسیم کے نتیجے میں جہاں ہندوستان میں بسنے والے بے شمار مسلمانوں نے پاکستان ہجرت کی، وہیں یہاں بسنے والے دوسرے مذاہب کے لوگ بھی بھارت جابسے۔ کراچی سے تعلق رکھنے والا ایک ہندو خاندان حیدرآباد دکن پہنچا، جہاں اُس نے کراچی بیکری کے نام سے 1953 میں اپنی دُکان کھولی۔ آہستہ آہستہ کاروبار چمکا اور اس بیکری کی شاخیں حیدرآباد دکن سمیت بھارت کے دوسرے مختلف شہروں میں قائم کی گئیں۔
کراچی پاکستان کا سب سے بڑا اور ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت کا حامل شہر ہے۔ کراچی سمیت پاکستان کے مختلف شہروں میں دہلی، ممبئی، آگرہ اور دیگر بھارتی شہروں کے نام سے کئی بیکریاں، پکوان سینٹرز، ریسٹورنٹس قائم ہیں، جہاں لوگوں کا بے پناہ رش رہتا ہے، تاریخ کو کھنگال کر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہاں کبھی اُن کے خلاف کوئی احتجاج کیا گیا اور نہ اُن کے مالکان کو دھمکی دی گئی اور نہ ہی کبھی کوئی حملہ کیا گیا۔ کبھی بھی کسی پاکستانی شہری، تنظیم کو ان ناموں پر کوئی اعتراض نہیں رہا۔ دوسری طرف بھارتی انتہا پسندوں کی کم ظرفی کا مشاہدہ کیجیے کہ بھارت میں موجود ’’کراچی بیکری‘‘ انہیں ایک آنکھ نہیں بھائی۔ ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق پہلے بھی کراچی بیکری کو بند کرانے کے لیے وہ کوششیں کرچکے اور اب اُس پر حملہ کیا گیا، جس کے نتیجے میں مجبوراً مالکان نے بیکری بند کردی۔ صرف اسی پر موقوف نہیں، پاکستان کے کسی بھی شہر، علاقے کے نام پر قائم دُکان، ہوٹل، کاروبار ہندوانتہا پسندوں نے اپنے ملک میں چلنے نہیں دیتے، ان کے نام پر قائم کاروبار کو تباہ کرکے رکھ دیا جاتا ہے۔
بھارت میں دوسری بار انتہاپسند مودی حکومت برسراقتدار ہے۔ اس نے بھارت کا رہا سہا بھرم بھی غارت کرکے رکھ دیا ہے۔ بھارتی وزیراعظم مودی اپنے ہتھکنڈوں سے ہٹلر کو مات دے چکے ہیں۔ پاکستان کے خلاف مودی سرکار کی تمام تر مذموم سازشیں دُنیا بھر پر آشکارا ہوچکی ہیں۔ ڈس انفولیب اور پاکستان مخالف پروپیگنڈے کے حوالے سے تمام تر حقائق سامنے آچکے ہیں۔ بھارت میں خود اقلیتیں اب سراپا احتجاج ہیں، وہاں علیحدگی کی تحاریک کئی پنپ رہی ہیں، جو انڈیا کو ٹکڑے ٹکڑے کردینے کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہیں۔ اس لیے مودی حکومت کو اب ہوش کے ناخن لینے چاہئیں، انتہاپسندی کو ترک کردینے میں ہی بہتری ہے۔ مسلمانوں سمیت تمام اقلیتوں کو تحفظ اور اُن کے حقوق فراہم کیے جائیں، کسانوں کے مطالبات تسلیم کیے جائیں، ہندوئوں میں برداشت و تحمل کے کلچر کو پروان چڑھایا جائے۔ بھارت اگر ایسا نہ کرسکا تو اسے اس کا سنگین خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔