غلام مصطفیٰ
اسلام محض چند عبادات یا مذہبی رسوم کا نام نہیں بلکہ ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جو انسان کو اس کی پیدائش سے لے کر موت تک، بلکہ موت کے بعد کی زندگی تک رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ اسلام انسان کے عقیدے، عبادات، اخلاق، معاملات، معاشرت، معیشت اور سیاست، ہر پہلو کو متوازن اور منصفانہ انداز میں منظم کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کو دینِ فطرت کہا جاتا ہے، کیونکہ اس کی تعلیمات انسانی فطرت سے ہم آہنگ ہیں۔
اسلام کی بنیاد ایمان پر ہے۔ ایمان صرف زبان سے اقرار کا نام نہیں بلکہ دل کی گہرائی سے تصدیق اور عملی زندگی میں اس کا اظہار ہے۔ ایمان کے 6 بنیادی ارکان ہیں: اللہ پر ایمان، فرشتوں پر ایمان، آسمانی کتابوں پر ایمان، رسولوں پر ایمان، یومِ آخرت پر ایمان اور تقدیر پر ایمان۔
یہ عقیدہ انسان کے اندر جواب دہی کا احساس پیدا کرتا ہے۔ جب انسان یہ یقین رکھتا ہے کہ اسے اپنے ہر قول و فعل کا حساب دینا ہے تو وہ ظلم، بددیانتی اور ناانصافی سے بچنے کی کوشش کرتا ہے۔ اکثر لوگ عبادت کو صرف نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج تک محدود سمجھتے ہیں، حالانکہ اسلام میں عبادت کا مفہوم بہت وسیع ہے۔ حلال رزق کمانا، والدین کی خدمت کرنا، کسی کی مدد کرنا، سچ بولنا اور امانت داری اختیار کرنا، یہ سب عبادت کے زمرے میں آتے ہیں اگر نیت اللہ کی رضا ہو۔
نماز انسان کو بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے، روزہ صبر اور تقویٰ سکھاتا ہے، زکوٰۃ مال کو پاک کرتی اور معاشرے میں توازن پیدا کرتی ہے جب کہ حج اتحادِ امت اور مساوات کا عملی مظاہرہ ہے۔ اسلامی تعلیمات میں اخلاق کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: میں حُسنِ اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہوں۔
سچائی، دیانت داری، صبر، شکر، عفو و درگزر، عاجزی اور عدل، یہ سب وہ اوصاف ہیں جو ایک مسلمان کے کردار کا حصہ ہونے چاہئیں۔ بدقسمتی سے آج ہم عبادات پر تو زور دیتے ہیں لیکن اخلاق کو نظرانداز کردیتے ہیں، حالانکہ قیامت کے دن میزان میں سب سے بھاری چیز حسنِ اخلاق ہوگا۔
اسلام ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیتا ہے جو عدل، مساوات اور ہمدردی پر قائم ہوتا ہے۔ امیر اور غریب، حاکم اور محکوم، سفید اور سیاہ، سب اللہ کے نزدیک برابر ہیں، فضیلت کا معیار صرف تقویٰ ہے۔ اسلام یتیموں، بیواؤں، مسکینوں اور کمزور طبقے کے حقوق کا خاص خیال رکھتا ہے۔ زکوٰۃ، صدقات اور خیرات کا نظام اسی لیے بنایا گیا ہے تاکہ کوئی بھی فرد بنیادی ضروریات سے محروم نہ رہے۔
اسلام میں خاندان کو معاشرے کی بنیادی اکائی قرار دیا گیا ہے۔ والدین کا احترام، اولاد کی صحیح تربیت، میاں بیوی کے حقوق اور رشتہ داروں سے حسنِ سلوک، یہ سب اسلامی معاشرت کی بنیاد ہیں۔ قرآن مجید میں والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم بار بار دیا گیا ہے، حتیٰ کہ انہیں اُف تک کہنے سے منع کیا گیا ہے۔ اسی طرح شوہر اور بیوی کو ایک دوسرے کے لیے سکون اور لباس قرار دیا گیا ہے، جو باہمی محبت اور ذمے داری کی علامت ہے۔
اسلام علم حاصل کرنے پر بے حد زور دیتا ہے۔ پہلی وحی کا آغاز ہی لفظ اقرأ (پڑھو) سے ہوا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے۔ اسلامی تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں نے علمِ دین کے ساتھ سائنس، طب، فلکیات، ریاضی اور فلسفے میں بھی نمایاں خدمات انجام دیں۔ اصل اسلامی تعلیمات علم اور عمل کے حسین امتزاج پر زور دیتی ہیں۔
آج کا مسلمان فکری، اخلاقی اور عملی زوال کا شکار نظر آتا ہے، جس کی بنیادی وجہ اسلامی تعلیمات سے دُوری ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی عملی زندگی میں اسلام کا نفاذ کریں۔ سچائی، عدل، محنت، برداشت اور اتحاد، یہ وہ اصول ہیں جو اگر ہم اپنالیں تو نہ صرف ہماری ذاتی زندگی بہتر ہوسکتی، بلکہ پوری امت ایک بار پھر عزت و وقار حاصل کرسکتی ہے۔
اسلام ایک کامل اور آفاقی دین ہے جو ہر زمانے اور ہر معاشرے کے لیے قابلِ عمل ہے۔ اس کی تعلیمات انسان کو دنیا میں امن، سکون اور کامیابی عطا کرتی ہیں اور آخرت میں نجات کا ذریعہ بنتی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اسلام کو سمجھیں، اس پر عمل کریں اور اسے اپنے کردار کے ذریعے دنیا کے سامنے پیش کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں سچا مسلمان بننے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے اعمال کو اپنی رضا کے مطابق بنادے۔ (آمین)۔