انٹرویو: ہانیہ سلمان
میا صدیق نے حال ہی میں مس پاکستان ورلڈ کا ٹائٹل اپنے نام کیا ہے۔ برطانیہ سے تعلق ہے۔ وائس آف سندھ کے لیے ان کا خصوصی انٹرویو کیا گیا، جس کی تفصیل قارئین کی نذر ہے۔
سوال: کیا آپ ہمیں اپنے پس منظر کے بارے میں کچھ بتاسکتی ہیں؟ جیسے آپ کی تعلیم، خاندان اور وہ کامیابیاں جن پر آپ کو سب سے زیادہ فخر ہے؟
جواب: میرا نام مِیا صدیق ہے، میری عمر 20 سال ہے اور میں اس وقت ساؤتھ یارکشائر، انگلینڈ میں رہائش پذیر ہوں۔ میرے والد پاکستانی ہیں، جن کا تعلق جہلم سے ہے اور میری والدہ انگریز ہیں، اس لیے میرا پس منظر ثقافتی لحاظ سے بہت متنوع ہے۔ مجھے ہمیشہ تخلیقی اور بامقصد کام کی طرف رغبت رہی ہے، جس کا مظاہرہ میرے مختلف کرداروں سے ہوتا ہے— میں ڈانسر، اُستاد اور فلم و ٹی وی میں سپورٹنگ آرٹسٹ کے طور پر کام کرتی ہوں۔
میں کارپوریٹ ایونٹس اور فلاحی تقریبات میں پرفارم کرتی ہوں اور بچوں، بشمول خصوصی ضروریات کے حامل بچوں، کو ڈانس سکھاتی ہوں۔ میں اپنے والد کے پراپرٹی بزنس میں بھی پارٹ ٹائم کام کرتی ہوں، جس سے مجھے پاکستان میں نیک کاموں جیسے کہ کنویں کھودنے جیسے منصوبوں میں حصہ لینے کا موقع ملتا ہے۔ میری خواہش ہے کہ ہم مل کر پاکستان میں خواتین کے لیے پناہ گاہ قائم کریں۔
میں نے اے لیولز میں ڈرامہ، سیاست اور پبلک اسپیکنگ کی تعلیم حاصل کی اور "آرٹس ایوارڈ گولڈ” مکمل کیا، جس کا فوکس ڈانس پر تھا۔ مجھے خاص طور پر اس بات پر فخر ہے کہ میں نے ترکی اور شام کے زلزلہ متاثرین کے لیے 19,000 یورو سے زائد فنڈز جمع کیے اور بلندیوں کے خوف کھانے کے باوجود "میکملن کینسر سپورٹ” کے لیے اسکائی ڈائیو کیا— ان دونوں تجربات نے مجھے یہ سکھایا کہ اگر ہم اپنے پلیٹ فارم کو نیکی کے لیے استعمال کریں تو بڑی تبدیلی لاسکتے ہیں۔
سوال: آپ نے مس پاکستان ورلڈ کے مقابلے میں حصہ لینے کا فیصلہ کیوں کیا؟
جواب: میں نے مس پاکستان ورلڈ کے لیے اپلائی کرنے کا فیصلہ اس لیے کیا کیونکہ میں اپنی پاکستانی وراثت کا جشن منانا چاہتی تھی اور شمولیت پسندی (inclusivity) کو فروغ دینا چاہتی تھی۔ میرے لیے پیجنٹری صرف ظاہری خوبصورتی کے بارے میں نہیں، بلکہ یہ اعتماد، قیادت، آواز بلند کرنے اور ذاتی ترقی کا ایک ذریعہ ہے۔ یہ میرے لیے خود کو چیلنج کرنے اور خاص طور پر پاکستان میں دیگر خواتین کو اپنی پہچان اپنانے اور اپنی اصل پر فخر کرنے کی ترغیب دینے کا موقع تھا۔
سوال: اب جب کہ آپ نے یہ ٹائٹل جیت لیا ہے، آپ اس کو کیسے استعمال کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں؟
جواب: یہ ٹائٹل جیتنا میرے لیے بہت بڑا اعزاز ہے، لیکن میں اسے ایک ذمے داری سمجھتی ہوں—عورتوں کی آواز بننے اور مثبت تبدیلی لانے کی۔ میری توجہ ان مسائل کو اجاگر کرنے پر ہوگی جن کا سامنا پاکستانی خواتین کو ہوتا ہے، جیسے کہ تشدد، ہراسانی،اور استحصال، اور ان کے خلاف مضبوط قوانین کی حمایت کرنا۔
میں ان فلاحی اداروں اور تنظیموں کے ساتھ مل کر کام کرنے کا ارادہ رکھتی ہوں جو خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے کام کرتے ہیں— چاہے وہ تعلیم ہو، معاشی مواقع، یا سماجی معاونت— تاکہ میں امید، طاقت اور ترقی کا ایک مثبت پیغام چھوڑ سکوں۔
سوال: آپ کے نزدیک سب سے اہم سماجی مسئلہ کون سا ہے اور آپ نے اسی پر توجہ کیوں مرکوز کی ہے؟
جواب: مجھے کئی اہم مسائل سے گہری وابستگی ہے، جیسے کہ ذہنی صحت، نسل پرستی اور بُلیئنگ، لیکن میرے دل کے سب سے قریب مسئلہ پاکستان میں خواتین کے حقوق ہیں۔ میرا ماننا ہے کہ ہر انسان، چاہے وہ کسی بھی جنس، نسل یا مذہب سے ہو، کو عزت، آزادی اور مساوات کا حق حاصل ہے۔ پاکستان میں خواتین کو جن مسائل کا سامنا ہے، جیسے کہ تعلیم تک محدود رسائی، گھریلو تشدد اور سماجی پابندیاں، یہ عالمی انصاف کی جدوجہد کا حصہ ہیں۔ میں ان خواتین کے لیے آواز بننا چاہتی ہوں جنہیں اکثر سنا نہیں جاتا اور میں حقیقی، پائیدار تبدیلی کی خواہاں ہوں۔
سوال: آپ کو کون سے مشغلے یا سرگرمیاں پسند ہیں؟
جواب: مجھے تخلیقی اور فعال رہنا بہت پسند ہے اور رقص میری سب سے بڑی محبت ہے۔ میں خواتین کے لیے ایک ہفتہ وار ڈانس کلاس چلاتی ہوں، خاص طور پر ان خواتین کے لیے جو حجاب پہنتی ہیں— یہ ایک محفوظ اور خوشگوار ماحول فراہم کرتا ہے جہاں وہ آزادی سے اور اعتماد کے ساتھ رقص کر سکتی ہیں۔
میں مختلف ڈانس اسٹائلز سکھاتی ہوں اور یہاں تک کہ ہوائی (aerial) مہارتیں جیسے کہ "ہوپ” اور "ٹریپیز” بھی شامل کرتی ہوں۔ میں ہر سال ایک کثیر الثقافتی ڈانس ایونٹ کا اہتمام بھی کرتی ہوں، جس کا مقصد مختلف فلاحی اداروں کے لیے فنڈز اکٹھے کرنا اور تنوع کا جشن منانا ہوتا ہے— یہ میں 17 سال کی عمر سے کر رہی ہوں۔ اس کے علاوہ، مجھے والنٹیئر ورک بھی بہت پسند ہے، خاص طور پر "پینی اپیل” کے ساتھ، جو ایک ایسا ادارہ ہے جس کی میں قدر کرتی ہوں کیونکہ یہ دنیا بھر میں تعلیم، ایمرجنسی امداد اور پائیدار ترقی کے ذریعے غربت کے خاتمے کے لیے کام کرتا ہے۔
سوال: آپ پاکستانی خواتین کو کیا مشورہ دینا چاہیں گی؟
جواب: خود پر یقین رکھیں اور اپنی انفرادیت پر فخر کریں۔ اپنی شناخت کو اپنائیں—پاکستانی ہونا فخر کی بات ہے۔ کبھی یہ محسوس نہ کریں کہ آپ کو خود کو چھپانے کی ضرورت ہے، کیونکہ آپ کی انفرادیت ہی آپ کی سب سے بڑی طاقت ہے۔
ہمیشہ اپنے اصل پر قائم رہیں، اور اپنی اقدار کو اپنا رہنما بنائیں۔ اگر آپ اپنے آپ اور اپنے مقصد سے مخلص ہوں تو آپ ہر پیجنٹ میں چمکیں گی۔