اسلام آباد: قومی ایئرلائن کی خریداری میں پاکستان کے مالدار خاندانوں نے دلچسپی ظاہر کردی۔
شہباز حکومت 75 فیصد حکومتی تجارتی ادارے فروخت کرنے کے حق میں نہیں ہے، حکومت انشورنس، مالیات، روڈ ٹرانسپورٹ، لاجسٹکس، آئل اینڈ گیس پروڈکشن سے متعلق ادارے فروخت کرنا نہیں چاہتی، یہی وجہ ہے کہ پی آئی اے اور بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے علاوہ باقی تمام تجارتی اداروں کو نج کاری کے دائرے سے باہر رکھا گیا ہے۔
وزارت نج کاری کے ذرائع نے پاکستان کے ایک معروف انگریزی روزنامے کو بتایا کہ نج کاری کے خلاف اندرونی طور پر مزاحمت کا سلسلہ جاری ہے، جس کی وجہ سے 87 میں سے صرف 21 تجارتی اداروں کو ہی فعال نج کاری فہرست میں رکھا گیا ہے۔
متعلقہ وزارتوں نے بغیر کوئی وجہ بتائے 39 کمپنیوں کو نج کاری پروگرام سے باہر کردیا ہے جب کہ دیگر 27 کی تفصیلات ظاہر نہیں کی ہیں، جس کی وجہ سے حکومت نے صرف ایک چوتھائی تجارتی اداروں کی نج کاری کا فیصلہ کیا ہے، سرکاری محکموں کی جانب سے عدم تعاون کی وجہ سے ان تمام محکموں کی نج کاری ممکن نہیں رہی ہے۔
حکومت کی جانب سے نج کاری کے لیے شارٹ لسٹ کی گئی 21 سرکاری کمپنیوں میں پی آئی اے بھی شامل ہے، تین مقامی ایئرلائنز فلائی جناح، ایئرسیال اور ایئربلو نے نیلامی کے کاغذات حاصل کرلیے ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ ان میں سے کچھ ایئرلائنز غیرملکی ایئرلائنز کے ساتھ جوائنٹ وینچر کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں، کچھ کمپنیوں نے نیلامی کی دستاویزات حاصل تو کرلی ہیں، لیکن ابھی تک جمع نہیں کرائی ہے، جس کے بعد خواہشن مند پارٹیوں کی درخواست پر نج کاری کمیشن نے دستاویزات جمع کرانے کی آخری تاریخ میں توسیع کردی ہے۔
وزارت کے ایک سینئر افسر کے مطابق گیریزانٹرنیشنل جو گرائونڈ ہینڈلنگ بزنس سے تعلق رکھتی ہے، نے بھی نیلامی میں حصہ لینے کی خواہش کا اظہار کیا ہے، لیکن دستاویزات جمع کرانے کے لیے کچھ مہلت مانگ لی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ مزید 2 سے 3 پارٹیاں اگلے چند دنوں میں سامنے آجائیں گی، جس کی وجہ سے نج کاری بورڈ نے دستاویزات جمع کرانے کی تاریخ 3 مئی سے بڑھا کر 18 مئی کردی ہے، حکومت نے ممکنہ سرمایہ کاروں کی اہلیت کا جائزہ لینے کے لیے ایک پری کوالیفکیشن کمیٹی بھی قائم کردی ہے، حکومت نے نیلامی میں حصہ لینے کے لیے کم از کم مالی حیثیت 30 ارب روپے رکھی ہے، جس سے پاکستان کے امیر خاندانوں کے لیے نیلامی میں حصہ لینے کی راہ ہموار ہوگئی ہے، جب کہ کسی قسم کا ایوی ایشن تجربہ بھی نہیں مانگا گیا ہے۔
عارف حبیب، لکی سیمنٹ کی مالک طبہ فیملی، پائینیئر سیمنٹ کے مالک حبیب اللہ خان، بیسٹ وے سیمنٹ اور میپل لیف سیمنٹ نے بھی خریداری میں دلچسپی کا اظہار کیا ہے اور نیلامی کے کاغذات حاصل کرلیے ہیں، سندھ کے دو کاروباری گروپس اومنی گروپ اور ڈی بلوچ کنسٹرکشن کمپنی نے بھی دلچسپی کا اظہار کیا ہے، تاہم ابھی تک کوئی علاقائی کمپنی پی آئی اے کی خریداری کے لیے آگے نہیں آئی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ نج کاری کے لیے نشان زد 87 تجارتی اداروں میں سے وزارتوں نے صرف 60 کی تفصیلات شیئر کی ہیں جب کہ بغیر کوئی وجہ بتائے 37 اداروں کی نج کاری نہ کرنے کی سفارش کی ہے، ان 21 فرموں (جن کی نج کاری کی سفارش کی گئی ہے) میں سے 15 فرمیں جن کی فعال نج کاری فہرست میں شامل ہیں، لیکن متعلقہ وزارتیں تعاون نہیں کررہیں جب کہ مزید 6 فرموں پوسٹل لائف انشورنس کمپنی لمیٹڈ، زرعی ترقیاتی بینک لمیٹڈ، یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن، جامشورو پاور کمپنی لمیٹڈ (جینکو I،) لاکھڑا پاور جنریشن کمپنی لمیٹڈ (یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن اور ہزارہ الیکٹرک سپلائی کمپنی (ہازیکو) کو بھی نج کاری کی فہرست میں شامل کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
وزارت نج کاری نے سفارش کی ہے کہ نقصان دینے والی فرموں کی ترجیحی بنیادوں پر نج کاری کی جائے اور حکومت اپنا کردار صرف اسٹرٹیجک انٹرسٹ تک ہی محدود رکھے، وزارت نج کاری نے سفارش کی ہے کہ متعلقہ وزارتوں کی جانب سے عدم تعاون کی وجہ سے صرف SOEs کی کابینہ کمیٹی کو ہی کسی بھی فرم کو نج کاری فہرست سے باہر رکھنے یا داخل کرنے کا اختیار ہونا چاہیے۔