ہندوستان میں مسلمانوں پر ظلم کی بات ہوتی ہے تو یہاں کے کچھ لوگ اسے پسند نہیں کرتے اور پاکستان میں ہونے والی اقلیتوں کے ساتھ زیادتی کے قصے سنانا شروع کردیتے ہیں۔ جب ان سے کہتے ہیں کہ یہاں کون سی اقلیت کو ان کے حقوق حاصل نہیں اور کس کے ساتھ ظلم کیا گیا تو یہ لوگ خاموش رہتے ہیں۔ لیکن ایسے لوگ بھی اب آہستہ آہستہ ہندوستان کی شدت پسندی کے قائل ہوتے جارہے ہیں کیوں کہ یہ بھارت میں جنہیں سیکولر سمجھ کر ان کے گن گاتے تھے وہ آج خود بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ زیادتی کا رونا رو رہے ہیں۔ ان میں چاہے جاوید اختر ہوں، شبانا اعظمی ہو یا پھر نصیرالدین شاہ ہوں سب کے سب بیک وقت ایک ہی بات کر رہے ہیں کہ بھارت میں دن با دن شدت پسندی بڑھتی جارہی ہے اور ہندوتوا تحریکیں زور پکڑتی جارہی ہے۔ آئے دن اقلیت سے تعلق رکھنے والا کوئی نا کوئی ان کا شکار بنتا جا رہا ہے۔
حالیہ دنوں میں اسی تعصب کا شکار بھارت کے ابھرتے کامیڈین منور فاروقی بھی ہوئے۔ مدھیہ پردیش کی پولیس نے یکم جنوری کو منور فاروقی کے ایک کامیڈی شو سے عین قبل مونرو کیفے سے انہیں حراست میں لیا اور پھر ہندو دیوی دیوتاؤں کی توہین کے الزام میں انہیں دو جنوری کو باقاعدہ گرفتار کر لیا گیا تھا۔ منور فاروقی پر یہ الزام صرف ایک ہندو انتہا پسند ایکلویہ سنگھ کے کہنے پر لگائے گئے یہ اکلویہ سنگھ بی جے پی کے مقامی رہنما کا بیٹا ہے۔ مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ اس الزام کا کوئی ثبوت موجود نہیں جسے پولیس خود بھی تسلیم کر چکی ہے۔
حیران کن بات یہ ہے کہ ان کا پروگرام شروع بھی نہیں ہوا تھا کہ پولیس نے چھاپہ مار کر انہیں اور ان کے پانچ دیگر ساتھیوں کو گرفتار کر لیا۔ اکلویہ سنگھ اور اس کے ساتھیوں نے پروگرام شروع ہونے سے پہلے ہی توڑ پھوڑ کی تھی۔ مسٹر سنگھ ایک سخت گیر مقامی ہندو تنظیم ‘ہندو رکشا’ کا سربراہ بھی ہے۔ فاروقی کے خلاف مذہبی جذبات بھڑکانے اور وزیر داخلہ امیت شاہ کا مذاق اڑانے کے لیے مقدمہ درج کیا گیا تھا اور پھر ذیلی عدالتوں نے اسی بنیاد پر ان کی ضمانت کی درخواست مسترد کردی تھی۔ ان کے وکیل نے ہائی کورٹ سے رجوع کیا تو ریاستی ہائی کورٹ کے جج نے بھی ان کے خلاف بعض سخت متنازعہ ریمارکس کے ساتھ ضمانت مسترد کر دی تھی۔
اس مقدمے کی سماعت کے دوران ہائی کورٹ کے جج روہت آریہ نے فاروقی کے وکیل سے کہا تھا،”آپ دوسرے کے مذہبی جذبات اور احساسات سے کیوں فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں؟ تمہاری ایسی غلط ذہنیت کیوں ہے؟ آپ کاروباری فائدے کے لیے ایسا کیسے کر سکتے ہیں؟” دوسری جانب مدھیہ پردیش کی پولیس یہ بات آن ریکارڈ کہہ چکی ہے کہ اس کے پاس ایسا کوئی ثبوت نہیں ہے جس سے یہ ثابت ہو کہ فاروقی نے مذہبی جذبات مجروح کیے۔ لیکن ایکلویہ سنگھ نے عدالت کو بتایا تھا کہ انہوں نے فاروقی کو شو سے پہلے ریہرسل کرتے ہوئے سنا تھا کہ وہ ہندو دیوی دیوتاؤں کا مذاق اڑا رہے ہیں۔
جج نے شکایت کنندہ کی اسی گواہی کی بنیاد پر انہیں ضمانت نہیں دی تھی۔ دفاعی وکیل نے بحث کے دوران کہا تھا کہ جب فاروقی کا شو ہوا ہی نہیں تو پھر ان سے مذکورہ جرائم کیسے سرزد ہوئے اس پر جج نے کہا کہ گواہ کی بات سے بظاہر ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے ایسا کیا اور ابھی تو اس معاملے کی تفتیش جاری ہے۔ اس سے قبل اس معاملے پر ملک کی کئی سرکردہ شخصیات نے اپنے رد عمل میں فاروقی کی گرفتاری کو غلط بتایا تھا۔ سابق وزیر داخلہ پی چدمبرم نے حال ہی میں کہا تھا کہ جب پولیس خود کہہ چکی ہے کہ ان کے خلاف اس کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے تو پھر ایک فنکار جیل میں کیوں بند ہے۔
یہ تو جنوری کی بات تھی عدالتوں نے بھی فاروقی کو رہا کردیا ہے لیکن ان انتہا پسندوں کا کیا جنہوں نے اس کے نام کے آگے دیوی دیوتاوُں کا مذاق اڑانے کا لیبل لگا دیا ہے؟ رہا ہونے کے بعد بھی فاروقی کے خلاف مہم زور و شور سے شروع ہے، اس کے پروگرامز کو منسوخ کیا جا رہا ہے۔ حال ہی میں گوا میں ہندو انتہاپسند گروپ کی دھمکیوں کے بعد منور فاروقی کا شو منسوخ کردیا گیا۔
یہ پہلا موقع نہیں جب منور فاروقی کا مسلمان ہونے کی وجہ سے شو منسوخ کیا گیا ہو۔ اس سے قبل بھی مودی سرکار کے انتہاپسندوں کی دھمکیوں اور دباؤ پر منتظمین کو رائے پور، سورت، ممبئی، احمد آباد اور وادودرا میں بھی منور فاروقی کے شوز منسوخ کرنا پڑے تھے۔
بھارت ویسے تو سیکولر ہونے کا دعویٰ کرتا ہے پر در حقیقت مودی سرکار کے آنے کے بعد بھارت کی پہچان دنیا بھر میں انتہا پسند ریاست کے ہوچکی ہے۔ آج ہی کے دن بھارتی انتہا پسندوں نے کانگریس کے مسلم رہنما سلمان خورشید کے گھر کو آگ لگادی۔
سلمان خورشید کی رہائش گاہ پر مشتعل ہجوم نے دھاوا بول دیا۔ گھر میں توڑ پھوڑ کی اور اہل خانہ کو دھمکیاں دیں۔ سابق بھارتی وزیر خارجہ نے سوشل میڈیا پر تصاویر شیئر کرتے ہوئے لکھا مذہبی انتہا پسند گھر کے جلتے ہوئے دروازے دیکھ لیں۔
کانگریسی رہنما سلمان خورشید نے ‘ہندوتوا’ کا موازنہ بوکو حرام اور داعش سے کرتے ہوئے مودی کے دور میں ہندو انتہا پسندی میں اضافے پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔
اس سے پہلے ہندوستان کے مشہور شاعر اور ادیب جاوید اختر نے بھی ہندوتوا کو طالبان کی طرح شدت پسند قرار دیا تھا، جس کے بعد پورے ملک میں ان کے خلاف مظاہرے کیے گئے، انہیں دھمکیاں دی گئیں اور حسب روایت انہیں پاکستان کا ایجنٹ قرار دے کر پاکستان چلے جانے کا کہا گیا۔ کبھی منور فاروقی، کبھی شاہ رخ خان، کبھی نصیرالدین شاہ، کبھی عامر خان، کبھی سلمان خورشید تو کبھی جاوید اختر اس انتہا پسندی کا شکار ہوتے ہیں اور بھارت میں اپنے ہی لوگوں کو انہیں یقین دلانا پڑتا ہے کہ ہم ہندوستانی ہیں، ہم وطن سے محبت کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ کب تک یقین دلاتے رہیں گے؟ یقین تو وہاں دلایا جاتا ہے جہاں آپ کو اپنا سمجھا جاتا ہو۔ جب یہ انتہا پسند انہیں اپنا سمجھتے ہی نہیں تو پھر یقین کس بات کا؟ ان حالات میں بھارت میں مسلمانوں کا رہنا مشکل ہوتا جا رہا ہے اور اب یہ لوگ بھی سوال کر رہے ہیں کہ یہ سب آخر کب تک؟