کہنے کو تو بھارت خود کو دُنیا کی سب سے بڑی جمہوریت گردانتا ہے، لیکن دراصل وہ ایک نام نہاد جمہوریت ہے، جہاں سماجی ناہمواریوں کے سلسلے دراز ہیں۔ آج بھی بھارت میں سماجی ناانصافیاں بام عروج پر ہیں، دور جدید میں بھی کچھ نہیں بدل سکا ہے۔
دور جاہلیت میں بیٹیوں کو زندہ درگور کردیا جاتا تھا۔ اب بھارت میں بھارتیوں کی بڑی تعداد ماں کی کوکھ میں ہی بیٹیوں کا قتل عام دھڑلے سے کرنے پر کمربستہ ہیں۔ اس کو روکنے کی کوششیں کی گئیں، لیکن وہ اکارت جاتی رہیں، لوگ کسی نہ کسی طرح الٹرا ساؤنڈ کےذریعے صنف معلوم کر ہی لیتے ہیں۔
یہ سماجی لڑکیوں اور خواتین کے لیے کسی بھیانک اور ڈراؤنے خواب سے کم نہیں کہ جہاں چلتی گاڑیوں میں اجتماعی آبروریزی کے کئی واقعات رونما ہوچکے ہیں، جہاں لڑکی کو اپنی جاگیر اورجوتی سے بھی کم تر سمجھا جاتا ہے، جہاں اُسے انکار کا حق ہی نہیں، اگر وہ انکار کردے تو اُس سے حق زیست چھین لیا جاتا ہے۔ کہیں بھی سفاک عناصر اُسے بے آبرو کرسکتے ہیں۔ افسوس ان مقدمات میں بھی انصاف ہوتا نظر نہیں آتا۔ پھر یہ کیسے دُنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہوسکتا ہے جہاں ہمہ وقت انصاف کے بول بالے کے بجائے اُس کا منہ کالا ہی رہتا ہے۔
اب بھی زیادہ تر خاندان لڑکے کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔ بھارتی حکومت کے ایک سروے کا حصہ بننے والے 80 فیصد کے قریب افراد نے کہا کہ وہ اپنی زندگی میں کم از کم ایک بیٹے کے خواہش مند ہیں۔
قومی خاندانی صحت سروے کو بھارتی خاندانوں کا سب سے تفصیلی سروے قرار دیا جارہا ہے۔
بھارت میں بیٹی کے مقابلے میں بیٹے کو ترجیح دینے کے پیچھے یہ روایتی خیال موجود ہے کہ بیٹا خاندان کے نام کو آگے بڑھاتا ہے اور بڑھاپے میں والدین کا خیال رکھتا ہے جب کہ بیٹیاں شادی کے بعد سسرال چلی جاتی ہیں اور ان کے جہیز پر بہت زیادہ خرچہ بھی ہوتا ہے۔
2011 میں ہونے والی آخری مردم شماری کے مطابق ہر ایک ہزار مردوں کے مقابلے میں 940 خواتین ہیں جب کہ ہر ایک ہزار لڑکوں کے مقابلے میں 918 لڑکیوں کی پیدائش ہوتی ہے۔
یہ نیا سروے 2019 سے 2021 کے دوران ہوا جس میں پہلی بار لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں کی پیدائش کی شرح میں بہتری آئی مگر اب بھی زیادہ تر خاندان بیٹوں کی پیدائش چاہتے ہیں۔
نہ جانے کتنی بیٹیوں کو ماں کی کوکھ میں ہی ہر سال مار دیا جاتا ہے۔ اس وجہ سے بھارت میں لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں کی شرح پیدائش کم نظر آتی ہے۔ بھارتی سماج کی تنگ نظر سوچ نہ جانے کب بدلے گی۔
سروے میں بتایا گیا کہ اب بھی 15.37 فیصد خاندان بیٹیوں کے مقابلے میں بیٹوں کو ترجیح دیتے ہیں ، یہ شرح 2015-16 میں لگ بھگ 18 فیصد تھی۔ سروے کے مطابق اب بھی ایک بیٹے کی خواہش میں متعدد جوڑوں کی جانب سے بیٹیوں کی پیدائش کا سلسلہ جاری رکھا جاتا ہے۔ دوسری جانب سروے میں یہ بھی بتایا گیا کہ بیٹوں کے مقابلے میں زیادہ بیٹیوں کے خواہش مند خاندانوں کی تعداد بڑھ کر 5.17 فیصد ہوگئی ہے جو 2015-16 میں 4.96 فیصد تھی۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ اس کا براہ راست تعلق بھارت میں پیدائش کی شرح میں کمی سے ہے۔
شہری علاقوں کی توسیع، خواتین کے لیے تعلیمی شرح میں اضافہ اور دیگر وجوہ کی بنا پر بھارت میں شرح پیدائش فی جوڑا 2 تک پہنچ گئی ہے۔
نہ جانے بھارتی معاشرہ کب عقل کے ناخن لے گا۔ اس میں بھارتی حکومتوں کی بھی کوتاہی کا عمل دخل ہے۔ مذکورہ بالا حقائق بھارتی سماج کی قلعی کھولنے کے لیے کافی ہیں، جو کہنے کی حد تک تو عورت کو ادب و احترام دیتے ہیں، لیکن عمل کے معاملے میں صورت حال اس کے بالکل برعکس ہے۔