”میرا بھائی بہت قابل تھا، بڑا ہونے کے ناتے ہم سب کا بہت خیال رکھتا تھا، گھر کا معاشی نظام چلانے میں وہ والد کا بھرپور ہاتھ بٹاتا تھا، زندگی کی گاڑی چل رہی تھی۔ غربت تھی تاہم ہمارے گھرانے میں خوشیاں ہی خوشیاں بکھری پڑی تھیں، پھر نہ جانے کس کی نظر لگ گئی اور میرا ہیرے ایسا بھائی نشے کی لت کا شکار ہوگیا۔ وہ وقت ہمارے پورے گھر کے لیے انتہائی اذیت ناک تھا، اُسے اس لت سے چھٹکارا دلانے کے لیے والد اور والدہ نے بھرپور کوششیں کیں، اُسے سمجھایا، ہر طرح کے جتن کرلیے، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ وہ اس اندھے کنویں میں مزید نیچے جاتا چلا جارہا تھا۔ یہ صورت حال ہمارے گھرانے کے لیے سوہانِ روح سے کم نہ تھی۔ نشے کے لیے اُس کی تڑپ خطرناک حدوں کو چھوتی دکھائی دیتی تھی۔ وہ لمحہ دیکھا نہیں جاتا تھا۔ گھر میں پہلے ہی غربت تھی، اوپر سے ایک کمانے والا خود گھر پر بوجھ بن گیا تھا۔ وہ والد اور والدہ سے نشے کی خاطر پیسوں کا تقاضا کرتا، وہ منع کرتے تو اُن سے لڑائی جھگڑا کرتا۔ روز روز کے لڑائی جھگڑوں کے بعد اُس نے گھر آنا ہی چھوڑ دیا۔ پورا دن وہ نہ جانے کہاں نشے کی جھینپ مٹاتا اور کہاں رہتا، کچھ پتا نہیں چلتا تھا۔ لوگ آکر ہمارے والدین کو بتاتے کہ تمہارا بیٹا کسی سڑک پر نشے میں دُھت پڑا ہے۔ ہم لوگ اسے وہاں سے اُٹھا کر لاتے۔ نہلاتے دھلاتے اور اُس کو گھر میں رکھنے کے لیے تمام جتن کرتے، لیکن وہ ایک دو روز میں پھر چلا جاتا۔ اور ایک دن ایسا آیا کہ وہیں کسی فٹ پاتھ پر وہ زندگی کی قید سے ہمیشہ کے لیے آزاد ہوگیا اور ہم لوگوں کے لیے عمر بھر کا دُکھ اور غم چھوڑ گیا۔ منشیات نے ہمارا ہنستا بستا گھرانہ برباد کرڈالا۔“
محمد اسلم اپنے بڑے بھائی محمد نیاز سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے آب دیدہ ہوگئے۔ منشیات کے باعث محض ایک گھرانہ اپنے لخت جگر سے محروم نہیں ہوا، بلکہ ملک کے طول و عرض میں ایسے بے شمار گھرانے ہیں، جن کے نیاز اُن سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دُور جاچکے یا نشے کی دُنیا میں ہمیشہ کے لیے گم ہوچکے ہیں۔ کون سا ایسا شہر ہے جہاں کی فٹ پاتھوں، چوراہوں، پلوں کے نیچے، مزارات، بازار اور دیگر مقامات پر نشئی افراد دُنیا و مافیہا سے بے خبر نشے کی جھینپ مٹاتے دکھائی نہ دیتے ہوں۔ ملک بھر میں سسکتی انسانیت کا یہ نوحہ بڑی شدو مد کے ساتھ دکھائی اور سنائی دیتا ہے۔ منشیات کا زہر آج بھی ہمارے نوجوانوں کی بڑی تعداد کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ایک کروڑ سے زائد افراد منشیات کا استعمال کرتے ہیں۔ منشیات کی خرید اور فروخت دھڑلے سے جاری رہتی ہے۔ کوئی اس کے تدارک کے لیے سنجیدہ کاوشیں کرتا نظر نہیں آتا۔
اگر کبھی کبھار منشیات فروشوں اور اس کی اسمگلنگ کے خلاف اقدامات نظر بھی آتے ہیں تو وہ محض دکھاوے کے لیے ہوتے ہیں۔ منشیات کے اسمگلروں اور اس کے فروخت کنندگان کے خلاف چند کارروائیاں کردی جاتی ہیں، جن کو میڈیا پر بھرپور کوریج بھی مل جاتی ہے، اس کے بعد راوی چین ہی چین لکھ رہا ہوتا ہے۔ ایسا آخر کب تک چلے گا۔ کب ہمارے ملک کو اس عفریت سے نجات ملے گی۔ یہ سوالات جواب کے متقاضی ہیں۔
اپنی نسلوں کو اس عفریت سے محفوظ رکھنے کے لیے ذمے داری دکھانا ازحد ضروری ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک کو اس زہر سے پاک کرنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کیے جائیں۔ منشیات کے اسمگلروں اور اس کے فروخت کنندگان کے خلاف سخت کریک ڈاؤن وقت کی اہم ضرورت ہے کہ اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں۔ حکومت کو اب اس عفریت سے ملک کو مکمل طور پر پاک کرنے کے لیے موثر حکمت عملی ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ ملک بھر میں اس ضمن میں کارروائیوں میں تیزی لائی جائے، سب سے بڑھ کر انہیں تسلسل کے ساتھ اُس وقت تک جاری رکھا جائے، جب تک ملک ان ناپاکوں سے مکمل طور پر پاک نہیں ہوجاتا۔ یقیناً درست سمت میں اُٹھائے گئے قدم مثبت نتائج کے حامل ثابت ہوں گے۔