بریانی جنوبی ایشیا کی مقبول ترین ڈش ہے۔ مصالحوں کی مہک اور پیاز لہسن ادرک اور ٹماٹروں میں رچے بسے گوشت کی بوٹیاں گرما گرم بھاپ اڑاتے چاولوں کے ساتھ ۔۔۔ ساتھ میں دہی پودینے کا رائتہ اور کھیرے پیاز ٹماٹر کا سلاد۔ اہتمام کے ساتھ دسترخوان پررونق افروز بریانی اپنی خوشبو سے کھانے والوں کی بھوک اور اشتیاق بڑھا دیتی، کھاتے جاؤ پیٹ بھر جائے جی نہ بھرے کا معاملہ ہوتا۔ اس کے ذائقہ نے ایسا رنگ جمایا کہ کوئی دعوت بغیر بریانی کے دعوت نہیں مانی جاتی ہے۔ بچے کی پیدائش پر چھلہ، چھٹی، عقیقہ ، شادی بیاہ کون سی تقریب ہے جس کے کھانے میں بریانی نہ ہو، یہاں تک کہ مرنے کے بعد زیارت اور چہلم میں بھی بریانی ہی مرنے والے کی مغفرت کا سہارا بن گئی ہے۔ بریانی کہاں سے شروع ہوئی اور کس طرح موجودہ شکل و صورت کو پہنچی، آئیے اس کا جائزہ لیتے ہیں۔
بریانی کا نام :
اس سلسلے میں دو باتیں بیان کی جاتی ہیں۔ پہلی تو یہ کہ بریانی فارسی لفظ برنج بمعنی چاول سے نکلی ہے۔ دوسرا خیال یہ ہے کہ یہ فارسی لفظ بریاں سے نکلی ہے جس کا مطلب بھوننا یا گھی میں چرب کر کے کسی چیز کو تلنا۔ بریانی میں چونکہ گوشت کو مصالحوں کے ساتھ تل کر چاولوں میں شامل کیا جاتاہے اس لئے اسکا نام بریانی پڑگیا۔
ایک تاریخ دان کے مطابق آج سے کوئی چار ہزار سال قبل وسط ایشیا کے لوگوں نے چاولوں میں مختلف جانوروں جیسے کہ گائے، بھیڑ بکری اور مرغ وغیرہ کا گوشت شامل کر کے پکانا شروع کیا اور یہ ڈش پلاؤ کہلائی۔ جب مغلوں نے ہندوستان کا رخ کیا تو وہ اپنے ساتھ پلاؤ بھی برصغیر میں لائے۔ لیکن ابتدا میں یہ پلاؤ محض گوشت چاول اور خشک میوہ جات پر مشتمل ہوتا تھا، جیسا کہ آجکل کا افغانی پلاؤ۔ بکرے کے گوشت کا پلاﺅ برصغیر کے پکوانوں کی تاریخ میں ایک مقبول پکوان رہا ہے اور اب بھی اسے بہت زیادہ پسند کیا جاتا ہے۔ پلاؤ بنانے کے لئے بکرے کے گوشت، گرم مصالحوں اور ثابت دھنیا و سونف کو لہسن ادرک اور پیاز کے ساتھ کے ساتھ ابال کر یخنی بنائی جاتی ہے۔ پھر اس یخنی میں چاول پکا کر تلی ہوئی براؤن پیاز اور زعفران اور کیوڑے کے ساتھ دم دیا جاتا ہے۔ یہ پکوان عید الاضحیٰ کے موقع پر لگ بھگ ہر گھر میں تیار کیا جاتا ہے اور خصوصی مواقع پر بھی اسے بے حد پسند کیا جاتا رہا ہے۔ بریانی دہلی میں زیادہ مقبول تھی جبکہ لکھنؤ میں پلاﺅ، دونوں شہروں کے رہائشیوں کی چاول کے ان دونوں پکوانوں کے لیے ترکیب بھی اپنی تھی۔
جب مغلوں نے ایران سے راہ و رسم بڑھائے تو ایرانی مصالحے بھی پلاؤ میں شامل ہو گئے۔ فارسی کھانا پکانے کی ایک سب سے امتیازی تکنیک گوشت کو دہی میں بھگونا ہے۔ بریانی کے لیے پیاز، لہسن، بادام اور مصالحوں کو دہی میں شامل کرکے ایک گاڑھا پیسٹ تیار کیا جاتا ہے جس کی کوٹنگ گوشت پر کی جاتی ہے۔ ایک بار جب یہ عمل مکمل ہوجاتا ہے تو گوشت کو پکانے کے برتن میں منتقل کرنے سے قبل کچھ دیر تل لیا جاتا ہے، اس کے بعد پلاﺅ کو پکانے کی تکنیک پر عمل کیا جاتا ہے، چاولوں کو پکا کر گوشت پر ڈال دیا جاتا ہے، زعفران ملے دودھ کو چاولوں پر انڈیلا جاتا ہے تاکہ اس پر رنگ چڑھ سکے اور خوشبو پیدا ہو اور پھر پورے پکوان کو ڈھکن سے ڈھک کر کم کوئلوں کی آنچ پر پکایا جاتا ہے۔ بریانی درحقیقت فارسی پلاﺅ کا ہندوستانی مصالحہ دار روپ ہے۔
یہ مانا جاتا ہے کہ چاولوں کو تلنے سے ان میں خشک میوے کا ذائقہ آجاتا ہے، جبکہ نشاستے کو جلانے سے چاولوں کی اوپری تہہ لیس دار ہوکر جم جاتی ہے۔ اس سے الگ ایک بکرے کی ران کو دہی، مصالحوں اور پپیتے میں رچایا جاتا ہے اور پھر نرم ہونے تک پکائی جاتی ہے۔ ایک بار جب گوشت پک جاتا ہے تو اسے ادھ پکے چاولوں پر تہہ کی صورت میں بچھا دیا جاتا ہے، پھر اس میں عرق گلاب کے چند قطرے، زعفران اور جاوتری کو ڈالا جاتا ہے، پھر ایک دیگ میں سیل بند کرکے ہلکی آنچ پر پکنے کے لیے اس وقت تک چھوڑ دیا جاتا ہے جب تک چاول مکمل طور پر پک اور پھول نہ جائیں، اور پیش کرنے کے لیے تیار نہ ہوجائیں۔ اب جب بریانی برصغیر میں مقبول ہوئ تو مختلف علاقوں میں اس کی مختلف اقسام بھی وجود میں آتی گئیں۔
کہا جاتا ہے کہ نظام حیدراباد آصف جاہ اول کی خواہش تھی کہ ان کا اپنا ایک شاہی پکوان یا ڈش ہو۔ اس سلسلے میں چوٹی کے باورچیوں کی خدمات حاصل کی گئیں اور اس کا نتیجہ ہمارے سامنے چٹپٹی حیدرابادی بریانی کی صورت موجود ہے۔ پاکستان میں جو سندھی بریانی کی ترکیب ہے وہی انڈیا میں حیدرآبادی بریانی کی ہے۔ جس میں دہی ٹماٹر ہرا مصالحہ وغیرہ ملا کر گوشت کی تہہ لگاتے ہیں اور اوپر سے تلی پیاز چھڑکتے ہیں۔ بقیہ مرآدبادی بریانی جو گوشت کی یخنی بنا کر پکائی جاتی ہے، یعنی اس میں پہلے پلاؤ کی طرح یخنی بنائی جاتی ہے اور پھر مصالحے شامل کر کے بریانی بنائ جاتی ہے۔
لکھنوی بریانی جس میں کوئی مسالہ نظر نہیں آتا صرف گوشت اور رنگ لیکن ذایقہ پورا۔
کلکتہ بریانی جس میں آلو ڈالتے ہیں اور ویج پلاؤ جس میں پنیر اور سبزیوں کو دہی مصالحے میں بھون کر تہہ لگاتے ہیں۔ ویجیٹیرین اسے ویج بریانی کہہ کے تسلی کرتے ہیں حالانکہ ہوتا وہ پلاؤ ہے۔
میسوری بریانی، ٹیپو سلطان بریانی کو کرناٹک سے میسور لے گئے اور بریانی کی ایک نئ شکل میسوری بریانی وجود میں آئی۔
تہاری: بریانی کی شہرت اور ذائقے سے متاثر ہو کر کچھ لوگوں نے بغیر گوشت کی بریانی بھی بنانا شروع کردی۔ ہو سکتا ہے کہ یہ ان ہندوئوں کے لئے بنائی گئی ہو جو گوشت سے پرہیز کرتے ہیں۔ عام طور پر تاہری میں آلو چاول اور مصالحے شامل کئے جاتے ہیں۔
یہ تلخ حقیقت بھی فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ اصلی بریانی کا لازمی جزو زعفران، کیوڑہ، جائفل جوتری اور دیگر کچھ مصالحے اب بریانی میں نہیں ڈالے جاتے۔ ان گنت ہوٹلیں بریانی کے اشتہار سے چمک اٹھی ہیں مگر اس میں وہ مزہ نہیں۔ گوشت کی دو چار بوٹیاں ، چاول تو بریانی کے ہوتے ہیں لیکن خوشبو شاید ہی ہو۔ نہ اب وہ باذوق لوگ رہے اور نہ بریانی کا ذائقہ رہا۔ جب تک انڈیا سے ہجرت کر کے آنے والے خاندانوں کی سگھڑ خواتین حیات رہیں وہ بریانی کو اس کی اصل ترکیب اور ذائقے کے ساتھ بناتی رہیں اور کچھ نے یہ فن و ترکیب اپنی آنے والی نسل کو سونپ دی۔ اب نہ وہ گنگا جمنی تہذیب کی قوس قزح ہے نہ وہ لوگ تو صاحب باورچی کی بریانی میں مزہ کیسے آئے گا وہ لذت کہاں سے آئے گی جو اصلی بریانی کی شان امتیاز تھی۔ لیکن بہرحال کراچی آج بھی بریانی میں نمبر ون ہے۔ تو پھر کیا خیال ہے ، ہو جائے ایک گرما گرم بریانی؟