لاہور: گریٹر اقبال پارک مقدمہ میں پولیس نے ملزمان کی گرفتاری کے لیے کارروائی کرتے ہوئے شہر کے مختلف علاقوں میں چھاپے مار کر ڈیڑھ درجن سے زائد افراد کو حراست میں لے لیا ہے۔
پولیس کی مختلف ٹیموں نے کارروائی کرتے ہوئے بادامی باغ، لاری اڈا اور شفیق آباد کے علاقوں میں چھاپے مار کر 20 افراد کو حراست میں لے لیا ہے۔
ابتدائی اطلاعات کے مطابق پولیس نے جن افراد کو حراست میں لیا ہے ان کی عمریں 18 سے 30 سال کے درمیان ہیں۔
اس ضمن میں ذمہ دار ذرائع نے بتایا ہے کہ حراست میں لیے جانے والے افراد کے موبائل فون نمبرز کی 14 اگست کو لوکیشن ٹریس کی جائے گی۔ حراست میں لیے جانے والے افراد کو ویڈیوز میں نظر آنے والے افراد سے بھی میچ کیا جائے گا۔
ذمہ دار ذرائع نے بتایا ہے کہ حراست میں لیے جانے والے 20 افراد کو تھانہ لاری اڈا منتقل کردیا گیا ہے جہاں تفتیش کا عمل جاری رکھا جائے گا۔
ڈی آئی جی آپریشنز لاہور ساجد کیانی نے گریٹر اقبال پارک میں تشدد کا نشانہ بننے والی متاثرہ لڑکی سے بھی ملاقات کی ہے۔
ڈی آئی جی آپریشنز ساجد کیانی نے ملاقات میں متاثرہ لڑکی سے اظہار ہمدردی کرتے ہوئے انہیں آئی جی پنجاب اور سی سی پی او لاہورکی جانب سے فوری انصاف کی فراہمی کی یقین دہانی بھی کرائی۔ ان کا اس موقع پر کہنا تھا کہ فراہمی انصاف کے لیے تمام ممکنہ وسائل بروئے کار لائے جائیں گے۔
آئی جی پنجاب انعام غنی نے اقبال پارک میں خاتون سے کیے جانے والے تضحیک آمیر رویے اور تشدد پر انکوائری کمیٹی بھی تشکیل دے دی ہے۔
اس ضمن میں باقاعدہ مراسلہ بھی جاری کردیا گیا ہے۔ جاری کردہ مراسلے کے تحت انکوائری کمیٹی کے سربراہ ایڈیشنل آئی جی سردار علی خان ہوں گے جب کہ ڈی آئی جی یوسف ملک اور ایس ایس پی اطہر اسماعیل ممبر مقرر کیے گئے ہیں۔
آئی جی پنجاب کی جانب سے تشکیل دی جانے والی کمیٹی اس بات کا تعین کرے گی کہ پولیس اس واقعہ میں ذمہ داری کیوں نبھا نہ سکی؟ اور ایف آئی آر کے اندراج میں تاخیر کیوں کی گئی؟
تشکیل دی جانے والی کمیٹی درج بالا سوالات کے جوابات تلاش کرنے کے دوران ذمہ داران کا تعین کرے گی اور سزا بھی دی جائے گی۔
کمیٹی کی تشکیل کے حوالے سے جاری کردہ مراسلے میں درج ہے کہ آئی جی پنجاب کو اپنی رپورٹ کمیٹی 22 اگست کو پیش کرے گی