نیویارک: وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ طالبان سے ڈیل کرنے کے لیے نیا رویہ اپنانا ہوگا، پچھلا رویہ ناکام رہا، عالمی برادری طالبان کو تسلیم کرنے سے متعلق روڈمیپ تشکیل دے۔
جنرل اسمبلی اجلاس کی سائیڈلائن میں امریکی خبر رساں ادارے اے پی کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے وفاقی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ پاکستان کی طالبان سے متعلق پالیسی حقیقت پسندی، تحمل، رابطہ اور تنہائی سے اجتناب پر مبنی ہے۔
انہوں نے کہا کہ عالمی برادری طالبان کو تسلیم کرنے سے متعلق روڈمیپ تشکیل دے۔ روڈ میپ تشکیل دینے کے بعد عالمی برادری طالبان سے براہ راست بات کرے، طالبان تمام مطالبات پر پورا اتریں تو انہیں مراعات بھی دی جائیں، توقعات پر پورا اترنا طالبان کے اپنے لیے اچھا ہے۔
انہوں نے کہا کہ دنیا کے لیے طالبان کو تسلیم کرنا آسان ہوجائے گا، عالمی برادری کو یہ بھی سوچنا چاہیے کہ ان کے پاس اس کے علاوہ کیا آپشن موجود ہے؟ کیا حقیقت سے نظریں چرانا عالمی برادری کے لیے ممکن ہوگا؟ پاکستان بھی بین الاقوامی برادری کی طرح، پُرامن اور مستحکم افغانستان دیکھنا چاہتا ہے، طالبان کو افغانستان کی سرزمین کو کسی اور ملک کے خلاف استعمال ہونے سے روکنا ہوگا۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ طالبان سے ڈیل کرنے کے لیے نیا رویہ اپنانا ہوگا، پچھلا رویہ ناکام رہا، طالبان سے وسیع البنیاد حکومت کے قیام، انسانی حقوق بالخصوص خواتین کے حقوق کے احترام کی توقع ہے، افغانستان کی حکومت کو امداد دے کر طالبان کو ترغیب دی جاسکتی ہے۔
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف اور امریکا افغانستان کے منجمد اثاثے بحال کرے، پاکستان طالبان کے ساتھ رابطوں کی بحالی میں مثبت کردار ادا کرنے کو تیار ہے، اچھی بات کہ طالبان ہمسایوں اور بین الاقوامی برادری کی سن رہے ہیں، طالبان نے پشتون اکثریتی کابینہ میں تاجک، ازبک اور ہزارہ برادری کے اراکین شامل کیے، افغان حکومت میں اب تک خواتین موجود نہیں، ہمیں تھوڑا انتظار کرنا چاہیے۔
اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان کو اطلاع ملی ہے افغانستان میں امن و امان کی صورت حال بہتر ہوگئی ہے، لڑائی ختم ہوچکی، پاکستان کو بڑے پیمانے پر افغان پناہ گزینوں کے مسئلے کا سامنا نہیں ہوا۔