محمد راحیل وارثی
بزرگوں سے بچپن سے ’’اپنے پیروں پر کلہاڑی مارنے‘‘ کی مثال تسلسل کے ساتھ سنتے آئے ہیں اور آج ہمارے ملک میں بسنے والی عوام کی اکثریت اس ضرب المثل کی تصویر بنی دِکھائی دیتی ہے، وہ اس طرح کہ ہم مسلسل اپنے ماحول کو آلودہ کرنے میں اپنا بھرپور حصہ ڈال رہے ہیں، ہمارے ملک کے طول و عرض کی سڑکیں، گلیاں، محلے، پارک، عوامی جگہیں غرض اکثر مقامات اس کی گواہی دیتے ہیں جہاں گندگی کے ڈھیر بھی ملتے ہیں، سیوریج کا پانی جمع بھی نظر آتا ہے، کوڑا بھی جابجا بکھرا پڑا ہوتا ہے، دھواں دھواں سا ہر سو اُٹھتا بھی نظر آتا ہے، شور مچاتی اور دھواں چھوڑتی گاڑیاں اور فیکٹریاں بھی دکھائی دیتی ہیں، پریشر ہارنز کی بھرمار بھی ہوتی ہے، سمندر کے ساحل پر بھی خوب گند مچایا جاتا ہے، غرض کن کن خرابوں کا ذکر کیا جائے، یہ اوامر انسان دوست ماحول کے لیے سمِ قاتل کی حیثیت رکھتے ہیں اور افسوس اس مسئلے کی سنگینی کا ادراک ہماری اکثریت کو قطعی نہیں، ہم بس ماحول کو آلودہ کرتے ہوئے اپنے پیروں پر کلہاڑیوں کے وار کیے چلے جارہے ہیں۔ آلودگی بڑھتی چلی جارہی ہے، ہر طرح کی آلودگی ہمارے ملک میں خاصی مضبوط جڑیں رکھتی ہے، حالانکہ ماحول کو جان دار دوست بنانا ازحد ضروری ہے وگرنہ موسمیاتی تغیرات ہمیں برباد کرڈالیں گے۔
جب دُنیا بھر کے ممالک اس عفریت سے نمٹنے کی سنجیدہ کوششیں کررہے تھے، اُس وقت ہماری حکومتیں محض بیانات اور دعووں سے آگے عملی بنیادوں پر کچھ نہ کرسکیں۔ اس کے بجائے ٹمبر مافیا کو کھلی چھٹی دیے رکھی گئی جو ہر سُو درختوں کے قتل عام میں مصروف عمل رہے۔ سابق حکمرانوں نے ”عالمی یوم ماحولیات“ کو ”یوم مخولیات“ بناکر رکھ چھوڑا ۔ اس موقع پر محض سیمینارز اور تقریبات پر اکتفا کیا جاتا، جس میں بڑے بڑے بھاشن دیے جاتے، جیسے ہی یہ دن گزرتا اس کے بعد طویل خاموشی چھائی رہتی۔ ماحولیاتی آلودگی میں سارا سال اضافہ ہوتا رہتا، لیکن ان کے کانوں پر جوں نہ رینگتی کہ انہیں بس اپنے مفادات عزیز اور کرسیئ اقتدار سے لگاؤ تھا۔ ملک و قوم کی بہتری کا سوچنے کے لیے ان کے پاس فرصت نہ تھی۔
ماحولیاتی آلودگی کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ گرین ہاؤسز گیسوں کے اخراج کی وجہ سے انتہائی بڑے پیمانے پر موسمیاتی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں، جس سے زراعت کا نظام بُری طرح متاثر ہوا ہے، اس باعث خوراک کی طلب پوری نہ ہونے اور بڑھتی گرانی سے بالخصوص غریب ممالک کے عوام کی مشکلات مسلسل بڑھ رہی ہیں۔ عالمی حدت میں روز بروز خطرناک اضافہ ہوتا جارہا ہے، سخت سردی اور شدید ترین بلکہ قیامت خیز گرمی ایسے موسموں کا ہمیں سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ نت نئے امراض جنم لے رہے ہیں۔ دُنیا میں زیست کے لیے ماحول ابتر سے ابتر ترین ہورہا ہے۔
حکومتوں کی غفلتوں کا ہی شاخسانہ ہے کہ وطن عزیز میں صورت حال دیگر ممالک کے مقابلے میں اب بھی کافی ابتر نظر آتی ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ دُنیا کے دوسرے ملکوں خصوصاً ترقی یافتہ ممالک میں ماحولیاتی آلودگی بالکل بھی نہیں، وہاں بھی آلودگی اپنا وجود رکھتی ہے، لیکن اس میں اتنی شدّت نہیں جتنی وطن عزیز میں پائی جاتی ہے، کیوں کہ پاکستان کا کوئی شہر ایسا نہیں جو ماحولیاتی آلودگی کی لپیٹ میں نہ ہو۔ ٹریفک کے شور و دھویں، پریشر ہارنز، گردوغبار، کچرے کے ڈھیروں سے قریباً ہر باہر نکلنے والے شہری کا واسطہ پڑتا ہے اور یہ تمام عوامل ماحول کو روز بروز بدتر سے بدترین کرتے چلے جارہے ہیں۔ ہمارے عوام آگہی و شعور نہ ہونے کے باعث اپنے ماحول کو خود تباہ کرنے کا باعث بن رہے ہیں، ان کی اکثریت شہری ذمے داریوں سے نابلد ہے۔ اس بناء پر کہا جاسکتا ہے کہ ملک عزیز میں 70 سے 80 فیصد ماحولیاتی آلودگی کے ذمے دار عوام خود ہیں۔ وہ اس طرح کہ شہری اپنے گھروں کو تو صاف رکھتے ہیں، پر گھر سے باہر گندگی پھیلاکر ماحولیاتی آلودگی میں اپنا بھرپور حصّہ ڈالتے ہیں۔ خواہ وہ جگہ سڑک ہو، گلی، بازار، میدان، تفریح گاہ ہو، غرض تمام مقامات پر ہمارے شہری ماحول کو خود آلودہ کررہے ہوتے ہیں۔ ڈسٹ بن موجود ہوتی ہے، لیکن کچرا باہر پھینک دیتے ہیں۔
اس تمام تر تناظر میں عوام سے گزارش ہے کہ جس طرح آپ اپنے گھر کو صاف ستھرا رکھتے ہیں، اُسی طرح اپنے گلی محلے، علاقے، شہر اور ملک کو صاف ستھرا رکھیں، گندگی ہرگز نہ پھیلائیں، کیوں کہ یہ ملک بھی تو آپ کا گھر ہے۔ اسی طرح ہر شہری سے جتنا زیادہ ہوسکے، درخت و پودے لگائے اور اُن کی آب یاری کرے، اُن کا اپنے بچوں کی طرح خیال رکھے۔ ماحول دشمن سرگرمیوں کے تدارک کے لیے حکومت کو سخت اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں، فیکٹریوں، آبی آلودگی بڑھانے والے کارخانوں، ملوں کے خلاف سخت کریک ڈاؤن کا آغاز کیا جائے۔ جنگلات کا رقبہ عالمی معیار کے متوازی ہر صورت لایا جائے۔ گندگی کے ڈھیروں و دیگر ایسے ماحول دشمن عوامل کا سدباب کیا جائے تو صورت حال بہتر ہوسکتی ہے۔ اس لیے آج سے ہر شہری تہیہ کرے اور اپنے پیروں پر کلہاڑی مارنے کی مشقِ ستم ترک کرے۔