جنیوا: کورونا وائرس کی تباہ کاریاں ایک طرف تو دوسری جانب کمپنیاں اس سے لڑنے کے نت نئے طریقوں پر کام کررہی ہیں۔ اب سوئزرلینڈ کی ایک فرم نے کورونا وائرس کا تدارک کرنے والی جینز بنانے کا دعویٰ کیا ہے۔ ان کے مطابق ڈینم99.99 کامیابی سے کورونا وائرس کو تلف کرسکتا ہے۔
ہائی کیو نامی سوئس کمپنی نے اس ڈینم کو وائروبلاک این پی جے 03 کا نام دیا ہے۔ کمپنی کے مطابق اگرچہ لباس پر کورونا وائرس زندہ رہ سکتے ہیں اور دوسروں کو متاثر کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں لیکن ان کے مطابق نئی ڈینم کو کئی تجربات سے گزارا گیا ہے اور اس میں کورونا جراثیم ختم کرنے کی زبردست صلاحیت موجود ہے۔
سب سے پہلے اسے ایک قسم کے کورونا وائرس 229 ای کو پوشاک پر آزمایا گیا ۔ کورونا کش بنانے کے لیے انہوں نے چاندی کے نمک اور ہوا بھرنے والی ایک ٹیکنالوجی استعمال کی ہے۔ حال ہی میں اس کمپنی نے کووڈ 19 کی وجہ بننے والے کورونا وائرس کو بھی کپڑے پر آزمایا اور لباس نے وائرس کا قلع قمع کردیا۔
دعوے کے مطابق وائروبلاک این پی جے 03 پر وائرس پہنچتے ہی صرف چند منٹوں میں ہلاک ہوجاتا ہے ، ساتھ ہی یہ بہت سے جراثیم اور بیکٹیریا مارنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔ اس طرح یہ لباس وائرس کو ختم کرکے اس کے پھیلاؤ کو بڑی حد تک روکتا ہے۔
اس لباس پر ڈوہرٹی انسٹی ٹیوٹ میں کئی تجربات کئے گئے ہیں لیکن جب کورونا وائرس کی ایک کالونی اس پر ڈالی گئی تو ان کی 99 فیصد مقدار ختم ہونے میں کل 30 منٹ لگے۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ ڈینم نصف گھنٹے میں کورونا وائرس کو تلف کرسکتی ہے۔
ہائی کیو کمپنی کے سی ای او کارلو سینٹونز نے بتایا کہ ان کی کمپنی نے کورونا وائرس سے بچاؤ کا لباس کامیابی سے تیار کیا ہے جس سے عالمی سطح پر اس وائرس سے بچنے میں بہت مدد ملے گی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ وائرس تلف کرنے والی یہ وائروبلاک ٹیکنالوجی ہر قسم کے کپڑوں پر استعمال کی جاسکتی ہے۔ ان میں بیڈ شیٹ کا کپڑا، ماسک، تولیے اور مزدوروں کا لباس بھی شامل ہے۔ کمپنی کے مطابق یہ ٹیکنالوجی سب سے زیادہ ان ڈاکٹروں اور طبی عملے کے لیے مفید ہے اور انہیں وائرس کا نوالہ بننے سے بچاسکتی ہے۔ اسی بنا پر کئی اداروں نے وائروبلاک ٹیکنالوجی میں دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔
لیکن یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا لباس دھونے کے بعد بھی اس کی وائرس کش صلاحیت برقرار رہے گی۔ کمپنی کے مطابق ڈینم کی تیاری کے وقت اس میں جو کیمیائی عمل کیا گیا ہے وہ کپڑے کو 30 منٹ دھونے کے بعد بھی برقرار رہتا ہے جس کا عملی تجربہ کیا گیا ہے۔