کوئٹہ: بلوچستان کے وزیراعلیٰ جام کمال خان کا کہنا ہے کہ عہدے سے مستعفی ہونے کی خبروں میں کوئی صداقت نہیں۔
خیال رہے کہ بلوچستان اسمبلی میں بلوچستان عوامی پارٹی کے ناراض اراکین اور اپوزیشن کی جانب سے وزیراعلیٰ بلوچستان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی تھی، جس پر رائے شماری 25 اکتوبر کو ہونا تھی۔
اس سے قبل خبریں چل رہی تھیں کہ وزیراعلیٰ بلوچستان نے تحریک عدم اعتماد سے پہلے ہی عہدے سے استعفی دے دیا اور استعفیٰ گورنر بلوچستان آغا ظہور کو ارسال کردیا تھا۔
دوسری جانب سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے پیغام میں وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے لکھا کہ میں نے کوئی استعفیٰ نہیں دیا۔ استعفے سے متعلق افواہیں نہ پھیلائی جائیں۔
ترجمان بلوچستان حکومت لیاقت شاہوانی نے بھی ٹویٹر پر لکھا کہ وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کے استعفے کے متعلق خبر میں صداقت نہیں۔
دھیان رہے کہ 20 اکتوبر کو بلوچستان اسمبلی میں وزیراعلیٰ جام کمال کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی قرارداد پیش کی گئی تھی، جس پر رائے شماری 25 اکتوبر کو ہونا تھی۔
رکن اسمبلی سردار عبدالرحمان کھیتران نے وزیراعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی تھی۔ قرارداد کی 33 ارکان نے حمایت کی تھی، اراکین نے اپنی نشستوں پر کھڑے ہوکر حمایت کا اعلان کیا تھا۔
اس موقع پر عبدالرحمان کھیتران کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ کی خراب حکمرانی کے باعث مایوسی، بدامنی، بے روزگاری، اداروں کی کارکردگی متاثر ہوئی، وزیراعلیٰ خود کو عقل کُل سمجھ کر اہم معاملات کو مشاورت کیے بغیر چلارہے ہیں۔ اہم معاملات کو مشاورت کے بغیر چلانے سے صوبے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا گیا، وزیراعلیٰ اپنے طور پر صوبے کے معاملات چلارہے ہیں، مطالبہ کرتے ہیں کہ خراب کارکردگی پر وزیراعلیٰ کو عہدے سے ہٹایا جائے۔
اس پر بلوچستان اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ بلوچستان کا کہنا تھا کہ نورمحمد نے پی ایچ ای وزارت سے استعفی دے دیا۔ جمہوری حوالے سے دل بڑا رکھنا چاہیے۔ میراگلہ اپوزیشن سے بنتا نہیں، اپوزیشن کو ساڑھے تین سال کے گلے شکوے ہیں۔ میراگلہ نالاں دوستوں سے بھی نہیں۔ یہ سب سیاست کا حصہ ہے۔ جب ہم کہیں بات کرتے ہیں تو آج کے دور میں ہر چیز کو نمایاں کردیا۔ ایسی بات کرنی چاہیے تاکہ چار ماہ بعد کھڑے ہوسکیں۔
انہوں نے کہا کہ سیاسی معاملات پر وہ بات کریں جس کا کل دفاع کر سکیں، کسی کی سیاسی بات کو مائنڈ نہیں کیا۔ میں نہیں کہتا ہم سب ٹھیک کررہے ہیں۔ بہت سارے لوگ برداشت کرتے اور بہت سے نہیں کرتے۔
جام کمال خان کا کہنا تھا کہ ہرضلع میں آج کام ہورہا ہے۔ سیاست میں کسی کو اغوا نہیں کیا جاتا۔ ہم ناراض دوستوں سے قلم دان لے سکتے تھے۔ کسی کو ناراض ہونے سے روک نہیں سکتے، ہر جماعت کا ایک طریقہ کار ہوتا ہے۔ مجھے اپنی جماعت اور اتحادیوں نے ووٹ دیا، اپوزیشن نے نہیں۔
وزیراعلیٰ بلوچستان کا کہنا تھا کہ رائے شماری کے دن ہونے والے فیصلے کو قبول کروں گا، استعفیٰ نہیں دوں گا، ناکامی کا سامنا کروں گا یہ سیاست کا حصہ ہے۔ گورننس چلانے والا ایڈمنسٹریٹر ہوتا ہے۔ سب کا شکر گزار ہوں، خاص کر اپوزیشن لیڈر کا جنہوں آج اچھی تقریر کی۔ ہر ایم پی اے کا وزن ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ثناء بلوچ کا چیلنج قبول کرتا ہوں، اگر دو فیصد ووٹ نہ ملے تو ہمیشہ کے لیے سیاست چھوڑ دوں گا، مگر اب ثناء اپنی بات قائم رہیں، میں سمجھ رہا تھا کہ اسد بلوچ پانچ سال تک رہے گا۔
اسپیکر نے رولنگ دیتے ہوئے کہا کہ لاپتا اراکین کو اسمبلی آنے دیا جائے، جس پر جواب دیتے ہوئے وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ اگر رکن اسمبلی لاپتا ہیں تو ان کے لواحقین تھانے جاکر مقدمہ درج کرالیں۔ دہرے معیار میں کسی چیز کو جانچنے کا پیمانہ ہونا چاہیے۔