پاکستان میں قوالی کے فن میں جو بہترین نام سرِ فہرست ہیں ان میں عزیز میاں قوال بھی شامل ہیں۔ عزیز میاں قوال نے اپنے منفرد انداز کے باعث نہ صرف برصغیر بلکہ دنیا بھر میں جہاں جہاں اردو بولی اور سمجھی جاتی ہے ، انہوں نے اپنے فن کا لوہا منوایا۔ آج عزیز میاں قوال کا 79واں یوم پیدائش ہے۔ اس موقع پر جانتے ہیں ان کے فن اور ان کی ذاتی زندگی کے بارے میں کچھ ایسی باتیں جو شاید اس سے قبل آپ نے نہ سنی ہوں۔
فن قوالی میں عالمی پہچان رکھنے والے عزیز میاں 17 اپریل 1942 کو بھارتی شہر دہلی میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے دس برس کی عمر میں فنِ قوالی سیکھنے کی ابتدا کی اور یہ سلسلہ سولہ سال کی عمر تک جاری رہا۔ اس کے بعد انہوں نے باقاعدہ قوالی پڑھنے کا آغاز کیا۔ ان کا شمار روایتی قوالوں میں ہوتا تھا۔ ان کی آواز نہ صرف بارعب بلکہ طاقتور بھی تھی۔ ان نے اپنی کامیابی کے لیے صرف اپنی آواز کا سہارا نہیں لیا، بلکہ اردو، فارسی اور عربی کے بہترین اشعار کا انتخاب اپنی قوالیوں میں پیش کرکے دنیا بھر کے لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرلیا۔ عزیز میاں کو فلسفے سے خاص شغف تھا اور وہ اکثر اپنے لیے شاعری خود کرتے تھے۔
ان کا اصل نام عبد ا لعزیز اور "میاں” ان کا تکیہ کلام تھا۔ یہ لفظ وہ اکثر اپنی قوالیوں میں استعمال کرتے تھے۔ وقت کے ساتھ یہ لفظ یعنی "میاں” ان کے نام کا حصہ بن گیا۔ قیام پاکستان کے بعد عزیز میاں نے بھارت کے شہر میرٹھ سے ہجرت کی تھی۔ اپنے فنی سفر کا آغاز چونکہ میرٹھ سے کیا تھا، اس لیے انہوں نے ابتدا میں "عزیز میاں میرٹھی” کی حیثیت سے شہرت حاصل کرلی تھی۔ انہوں نے اپنے فن کی ابتدا اسٹیج سے کی تھی اور اس دور میں بیش تر قوالیاں فوجی بیرکوں میں فوجی جوانوں کے لیے پیش کی تھیں، اس لیے انہوں فوجی قوال کا لقب بھی دیا گیا تھا۔
عزیز میاں کو قوالی کے دوران شاعری پڑھنے میں خاص مہارت حاصل تھی جو سننے والوں پر گہرا اثر چھوڑتی تھی۔ ان کی قوالیوں میں زیادہ توجہ کورس کی صورت میں گائیکی پر دی جاتی تھی جس کا مقصد قوالی کے بنیادی نکتہ پر زور دینا تھا۔ ان کی بیشتر قوالیاں مذہبی رنگ میں رنگی ہوتی تھیں لیکن ساتھ ہی انہوں نے رومانی رنگ کی قوالیوں میں بھی خاصی شہرت حاصل کی تھی۔ جن میں "شرابی میں شرابی” ، "تیری صورت نگاہوں میں پھرتی رہے” اور "اللہ ہی جانے کون بشر ہے” جیسی قوالیاں شامل ہیں۔
انہیں اپنی قوالیوں میں دینی اور صوفی مسائل پیش کرنے پر خاص مہارت حاصل تھی۔ وہ براہ راست خدا سے ہم کلام ہوتے اور انسان کی قابل رحم حالت کی شکایت کرتے۔ اس قسم کی قوالیوں میں وہ زیادہ تر علامہ اقبال کی شاعری پڑھا کرتے۔ خاص طور پر علامہ اقبال کی نظم شکوہ اور جواب شکوہ کے اشعار کو انہوں نے اپنی قوالیوں میں شامل کرکے اسے بہترین انداز میں پیش کیا۔
ملک کے اس عظیم قوال کا انتقال 6 دسمبر 2000ء کو ایران کے دارالحکومت تہران میں ہوا، جہاں وہ یرقان میں مبتلا ہونے کے بعد زیرعلاج تھے۔ انہیں ایرانی حکومت نے حضرت علی کرم اللہ وجہ کی برسی کے موقع پر قوالی کے لیے مدعو کیا تھا۔ عزیز میاں کے دو بیٹے، عمران اور تبریز، ان کے قوالی کے ورثے کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ یہ دونوں بیٹے اپنی قوالیوں میں اپنے والد کے انداز کو ہی اپناتے ہیں۔ عزیز میاں قوال کو ان کی وصیت کے مطابق ان کے پیر و مرشد طوطاں والی سرکار ملتان کے پہلو میں دفن کیا گیا۔
عزیزمیاں قوال کو حکومت پاکستان نے کئی اعزازات سے نوازا۔ انہیں 1989ء میں پرائڈ آف پرفارمنس سے بھی نوازا گیا۔ ان کی قوالیاں سننے والوں پرآج بھی وجد طاری کر دیتی ہیں۔