آج پاکستان سمیت دُنیا بھر میں ماحولیات کا عالمی دن منایا جارہا ہے، اس دن کو منانے کا مقصد عوام میں ماحول کی بہتری اور آلودگی کے خاتمے سے متعلق شعور و آگہی پیدا کرنا ہے۔ پچھلے چند سال میں پاکستان میں ماحولیاتی آلودگی کے معاملے کو سنجیدگی سے لیا گیا ہے۔
کاش سابق حکمراں بھی ذمے داری کا ثبوت دیتے۔ جب دُنیا بھر کے ممالک اس عفریت سے نمٹنے کی سنجیدہ کوششیں کررہے تھے، اُس وقت ہمارے سابق حکمراں محض بیانات اور دعووں سے آگے عملی بنیادوں پر کچھ نہ کرسکے۔ اس کے بجائے ٹمبر مافیا کو کھلی چھٹی دیے رکھی گئی جو ہر سُو درختوں کے قتل عام میں مصروف عمل رہے۔ سابق حکمرانوں نے ”عالمی یوم ماحولیات“ کو ”یوم مخولیات“ بناکر رکھ چھوڑا تھا۔ اس موقع پر محض سیمینارز اور تقریبات پر اکتفا کیا جاتا، جس میں بڑے بڑے بھاشن دیے جاتے، جیسے ہی یہ دن گزرتا اس کے بعد طویل خاموشی چھائی رہتی۔ ماحولیاتی آلودگی میں سارا سال اضافہ ہوتا رہتا، لیکن ان کے کانوں پر جوں نہ رینگتی کہ انہیں بس اپنے مفادات عزیز اور کرسی اقتدار سے لگاؤ تھا۔ ملک و قوم کی بہتری کا سوچنے کے لیے ان کے پاس فرصت نہ تھی۔
ماحولیاتی آلودگی کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ گرین ہاؤسز گیسوں کے اخراج کی وجہ سے انتہائی بڑے پیمانے پر موسمیاتی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں، جس سے زراعت کا نظام بُری طرح متاثر ہوا ہے، اس باعث خوراک کی طلب پوری نہ ہونے اور بڑھتی گرانی سے بالخصوص غریب ممالک کے عوام کی مشکلات مسلسل بڑھ رہی ہیں۔ عالمی حدت میں روز بروز خطرناک اضافہ ہوتا جارہا ہے، سخت سردی اور شدید ترین بلکہ قیامت خیز گرمی ایسے موسموں کا ہمیں سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ نت نئے امراض جنم لے رہے ہیں۔ دُنیا میں زیست کے لیے ماحول ابتر سے ابتر ترین ہورہا ہے۔
سابق حکمرانوں کی غفلتوں کا ہی شاخسانہ ہے کہ وطن عزیز میں صورت حال دیگر ممالک کے مقابلے میں اب بھی کافی ابتر نظر آتی ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ دُنیا کے دوسرے ملکوں خصوصاً ترقی یافتہ ممالک میں ماحولیاتی آلودگی بالکل بھی نہیں، وہاں بھی آلودگی اپنا وجود رکھتی ہے، لیکن اس میں اتنی شدّت نہیں جتنی وطن عزیز میں پائی جاتی ہے، کیوں کہ پاکستان کا کوئی شہر ایسا نہیں جو ماحولیاتی آلودگی کی لپیٹ میں نہ ہو۔ ٹریفک کے شور و دھویں، پریشر ہارنز، گردوغبار، کچرے کے ڈھیروں سے قریباً ہر باہر نکلنے والے شہری کا واسطہ پڑتا ہے اور یہ تمام عوامل ماحول کو روز بروز بدتر سے بدترین کرتے چلے جارہے ہیں۔ ہمارے عوام آگہی و شعور نہ ہونے کے باعث اپنے ماحول کو خود تباہ کرنے کا باعث بن رہے ہیں، ان کی اکثریت شہری ذمے داریوں سے نابلد ہے۔ اس بناء پر کہا جاسکتا ہے کہ ملک عزیز میں 70 سے 80 فیصد ماحولیاتی آلودگی کے ذمے دار عوام خود ہیں۔ وہ اس طرح کہ شہری اپنے گھروں کو تو صاف رکھتے ہیں، پر گھر سے باہر گندگی پھیلاکر ماحولیاتی آلودگی میں اپنا بھرپور حصّہ ڈالتے ہیں۔ خواہ وہ جگہ سڑک ہو، گلی، بازار، میدان، تفریح گاہ ہو، غرض تمام مقامات پر ہمارے شہری ماحول کو خود آلودہ کررہے ہوتے ہیں۔ ڈسٹ بن موجود ہوتی ہے، لیکن کچرا باہر پھینک دیتے ہیں۔
اس تمام تر تناظر میں عوام سے گزارش ہے کہ جس طرح آپ اپنے گھر کو صاف ستھرا رکھتے ہیں، اُسی طرح اپنے گلی محلے، علاقے، شہر اور ملک کو صاف ستھرا رکھیں، گندگی ہرگز نہ پھیلائیں، کیوں کہ یہ ملک بھی تو آپ کا گھر ہے۔ اسی طرح ہر شہری سے جتنا زیادہ ہوسکے، درخت و پودے لگائے اور اُن کی آب یاری کرے، اُن کا اپنے بچوں کی طرح خیال رکھے۔ ماحول دشمن سرگرمیوں کے تدارک کے لیے حکومت کو سخت اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں، فیکٹریوں، آبی آلودگی بڑھانے والے کارخانوں، ملوں کے خلاف سخت کریک ڈاؤن کا آغاز کیا جائے۔ جنگلات کا رقبہ عالمی معیار کے متوازی ہر صورت لایا جائے۔ گندگی کے ڈھیروں و دیگر ایسے ماحول دشمن عوامل کا سدباب کیا جائے تو صورت حال بہتر ہوسکتی ہے۔ دوسری صورت میں مزید موسم سخت اور زیست کے لیے قہر آلود اور عذاب ناک ہونے کا اندیشہ ہے۔