واشنگٹن: امریکی بحریہ کے ایک انجینیئر نے لوگوں کو چپ کرانے اور ہجوم کو پریشان کرنے والا غیرنقصاندہ آلہ بنایا ہے جو بولنے والے کی آواز کو ریکارڈ کرکے تھوڑے وقفے کے بعد اس کی جانب لوٹادیتی ہے۔
پیٹنٹ آفس کے مطابق انڈیانا کے ایک بحریہ افسر کرسٹوفر براؤن نے لاؤڈاسپیکر جیسے ایک آلے کا حقِ ملکیت (پیٹنٹ) حاصل کیا ہے جسے ’اکوسٹک ہیلنگ اینڈ ڈسرپشن‘ (اے ایچ اے ڈی) کا نام دیا گیا ہے۔ اپنی سادگی کے باوجود یہ بولنے والے کی آواز کو پکڑتا ہے اور دوبارہ اسے دو آوازوں میں لوٹاتا ہے اول یہ گفتگو کو فوری طور پر اصل آواز میں خارج کرتا ہے اور دوم کچھ وقفے بعد اسی آواز کو فضا میں بکھیرتا ہے۔
اسے تاخیری صوتی ردِ عمل یا ڈیلیڈ آڈیٹری فیڈ بیک کہا جاتا ہے۔ جب سننے والا اپنی ہی آواز کچھ لمحے بعد سنتا ہے تو وہ لاشعوری طور پر پریشان یا مضطرب ہوسکتا ہے۔ بسا اوقات ہم ٹیلیفون پر بات کرتے ہوئے اپنی ہی آواز دوبارہ سنتے ہیں اور پریشان ہوجاتے ہیں۔ عین اسی اصول پر یہ شے ایجاد کی گئی ہے۔
اس صورتحال میں بولنے والا متاثر ہوتا ہے اور گفتگو روک دیتا ہے۔ یہ سادہ ایجاد ایک پیالے نما چھوٹی ڈش، مائیکروفون اور الٹرسونک اسپیکر پرمشتمل ہے۔ اسے جس سمت میں پھیرا جائے یہ وہاں موجود شخص کی آواز سن کر دوبارہ اسی کے چہرے پر بھینک دیتا ہے۔ اس طرح منتخب شخص ہی اسے سن سکتا ہے۔
اس طرح لوگوں کو خبردار کرنے یا غیرمتعلقہ افراد کو آبی سرحدوں سے دور رکھنے کے لیے یہ ایک بہترین ایجاد ہے۔ اس طرح احتجاج کرنے والوں کو خبردار کرنے کے لیے یہ ایک بہترین نسخہ ثابت ہوسکتا ہے۔ فوجی چوکیوں پر اسے دوسروں کو روکنے کے لئے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ لیکن کسی مجمعے میں بدتمیز لوگوں کو چپ کرانے میں بھی اس کے کردار کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
لیکن واضح رہے کہ یہ نظام ایک دہائی سے بھی زائد عرصے سے استعمال ہورہے ہیں لیکن اس کا پورا نظام بہت بڑا اور بھاری بھرکم تھا اور اب اسے چھوٹا کرکے دستی بنایا گیا ہے۔