برسلز: یورپی یونین نے افغانستان کے لیے ایک ارب یورو کے امدادی پیکج کا اعلان کیا ہے۔
یورپی یونین نے ایک بیان میں کہا کہ افغانستان کی انسانی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے پہلے سے اعلان کردہ 25 کروڑ یوروز کی رقم میں مزید 30 کروڑ یوروز کا اضافہ کیا جائے گا جبکہ باقی رقم افغانستان کے ان پڑوسی ممالک کو دی جائے گی جہاں لوگ طالبان حکومت سے فرار کے بعد بطور مہاجرین جا رہے ہیں۔
یورپین کمیشن کی سربراہ ارسولا وان ڈیر لیین نے اٹلی کی میزبانی میں ورچوئل جی20 سمٹ کے دوران امداد کا اعلان کیا جہاں یہ سمٹ میں افغانستان میں انسانی اور سیکیورٹی کی صورت حال پر بات چیت کے لیے طلب کی گئی تھی۔
انھوں نے زور دیا کہ یورپی یونین کے فنڈز افغانوں کے لیے براہ راست مدد کے لیے ہیں اور یہ فنڈز طالبان حکومت کے بجائے زمین پر کام کرنے والی بین الاقوامی تنظیموں کو بھیجے جائیں گے کیونکہ یورپی یونین طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کرتی،وائٹ ہاؤس کے مطابق جی 20 ممالک کے ورچوئل اجلاس میں امریکی صدر جو بائیڈن نے رکن ممالک سے افغانستان کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔
اجلاس میں انسداد دہشت گردی کے ساتھ داعش خراساں کے خطرات پر بھی بات ہوئی،جی 20 ہنگامی سربراہی اجلاس میں ترک صدر رجب طیب اردوان نے اپنے ویڈیو خطاب میں کہا کہ عالمی برادری افغان عوام سے منہ موڑ کر انہیں اپنی قسمت پر نہیں چھوڑسکتی، افغانستان میں پائیدار امن عالمی امن کے لیے ناگزیر ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں افغانستان میں ایک مخلوط حکومت کے قیام میں طالبان کی مدد کرنا چاہیے،دریں اثنا دوحہ میں یورپی یونین کے نمائندوں کے ساتھ طالبان کے بالمشافہ مذاکرات ہوئے۔
خبر ایجنسی کے مطابق منگل کو ہونے والے مذاکرات میں افغانستان کے نئے حکمران اس کوشش میں ہیں کہ ان کی حکومت کو تسلیم کیا جائے اور اس کے علاوہ وہ انسانی بحران سے بچنے کے لیے امداد کے طلب گار ہیں۔
یورپی یونین کی نمائندہ نبیلہ مسرالی نے کہا کہ اس ملاقات سے امریکہ اور یورپ کو افغانستان سے مزید لوگوں کے انخلا، امدادی سامان کی ترسیل کے لیے رسائی اور خواتین کے حقوق کے احترام سمیت افغانستان کو دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہ نہ بننے دینے جیسے مسائل حل کرنے میں مدد ملے گی، ان کا کہنا تھا کہ ٹیکینیکل لیول پر یہ غیر رسمی مذاکرات تھے اور اس کا مطلب طالبان کی عبوری حکومت کو تسلیم کرنا نہیں۔
دوحہ انسٹیٹیوت فار گریجویٹ سٹڈیز کی ایک تقریب میں بات کرتے ہوئے عبوری وزیر خارجہ امیر خان متقی کا کہنا تھا کہ عالمی برادری کو چاہیے کہ ہمارے ساتھ تعاون کرے، اس سے ہم عدم تحفظ کو ختم کر سکیں گے اور دنیا کے ساتھ مثبت طریقے سے روابط قائم کر سکیں گے۔
ادھرافغانستان میں پاکستان کے سفیر منصور احمد خان نے امریکی میگزین فارن پالیسی کوایک انٹرویو میں کہا ہے افغانستان پر طالبان کی حکومت کے بعد امن و امان کی صورتحال میں نسبتا بہتری آئی ہے، امن و استحکام اور سلامتی ترجیحات ہیں اور طالبان کی قیادت میں اس حوالہ سے صورتحال بہتر ہوئی ہے، عالمی برادری طالبان حکومت کے ساتھ بات چیت جاری رکھے۔
اقوام متحدہ کے سربراہ انتونیو گوتریس نے دنیا سے اپیل کی ہے کہ وہ افغانستان کو معاشی طور پر تباہ ہونے سے بچانے کے لیے امداد دیں اور ساتھ ہی انہوں نے افغان خواتین اور لڑکیوں کے حوالے سے کیے گئے طالبان کے ’کھوکھلے‘ وعدوں پر بھی تنقید کی۔
ایک افغان ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے ترجمان طالبان ذبیع اللہ مجاہد نے کہا ہے کہ نیٹو کی طرف سے طاقت دکھانے کا وقت ختم ہو گیا،انہوںنے تجارت میں تعاون پر پاکستان کی تعریف کی۔اسپین کی فوجی پرواز بذریعہ پاکستان160 افغان شہریوں اور ان کی اہل خانہ کو لے کر دارالحکومت میڈرڈ پہنچ گئی۔