وزیراعظم عمران خان نے 14 فروری2020 کو ترک صدر طیب اردگان کی موجودگی میں فرمایا تھا کہ عثمانیوں نے ہم پر صدیوں حکومت کی ہے۔ وزیر اعظم نے یہ کارنامہ انجام دے کر تاریخ اور تاریخ کے طالب علم دونوں کو حیران کر دیا۔ اگر وزیرِ اعظم اس قدر کسی اور قوم سے متاثر ہو کر تاریخ بدل سکتے ہیں تو پھر اس قوم کا کیا ہوگا جو ایک ڈرامہ دیکھ کر اپنے ہیروز کو چھوڑ دوسروں کو ہیرو ماننے لگے ہیں۔
جیسے پرانے زمانوں میں سیاہ فام غلام ہوا کرتے تھے اسی طرح سفید فام غلام بھی ہوا کرتے تھے، یہ سفید فام غلام ترک ہوا کرتے تھے اور ترک خود کو پیدائشی غلام تصور کرتے تھے۔ ترک یہ سوچتے تھے کہ ہم پیدا ہی غلامی کرنے کے لیے ہوئے ہیں۔ لیکن ترکوں کی ذہنی سوچ اُس وقت بدلی جب ایک ترک غلام قطب الدین ایبک دہلی کا گورنر بناا ور بعد ازاں لاہور میں اُس نے اپنی الگ سلطنت ہونے کا اعلان کردیا۔
قطب الدین ایبک کو ایک سوداگر ترکستان سے خرید کر نیشاپور لے آیا اور قاضی فخرالدین عبد العزیز کے ہاتھوں فروخت کر دیا۔ جس نے اس کو سلطان شہاب الدین غوری کی خدمت میں پیش کیا۔ سلطان نے کثیر رقم دے کر اسے خرید لیا۔ شہاب الدین غوری اس کی صلاحیتوں کا قائل ہوگیا اور اسے اجمیر اور دہلی کا گورنر منتخب کردیا۔ یہاں سے ترکوں کی تقدیر بدلی اور جو ذہن غلامی پر آمادہ تھا وہ حکومت کرنے کے خواب دیکھنے لگا۔
حکومت کا خواب دیکھنا اور اپنی صلاحیتوں کے لوہے منوا کر حکومت کرنا ہر قوم کا حق ہے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہر قوم کے اپنے اپنے ہیروز ہوتے ہیں، ہر قوم کی اپنی اپنی تاریخ ہوتی ہے۔ عربوں کی اپنی تاریخ ہے، ترکوں کی اپنی تاریخ ہے، افغانوں کی اپنی تاریخ ہے اور ہماری اپنی تاریخ و شناخت ہے۔ مسئلہ تب کھڑا ہوتا ہے جب ہم اپنے ہیروز کو چھوڑ کر دوسری قوم کے لوگوں کو اپنا آئیڈیل اور ہیرو ماننا شروع کردیتے ہیں۔
ہم کبھی محمد بن قاسم کو اپنا مسیحا اور ہیرو تصور کرتے ہیں تو کبھی ارطغل کو اپنا ہیرو تصور کرلیتے ہیں، ہم سادہ لوح لوگ ہیں ناموں سے دھوکہ کھا جاتے ہیں کہ اس شخص کا نام اسلامی ہے اور یہ مسلمان ہے اس لیے اس کا وطن، قوم، رنگ اور نسل کوئی بھی ہو یہ ہمارا ہیرو ہے۔ حالانکہ حقیقت میں وہ ہمارا ہیرو اور آئیڈیل خود کو اُس کی اپنی نسل اور قوم سے پہچاننے میں ہی فخر محسوس کرتا ہے۔ ارطغل بھی ایک ترک نسل تھا اور اُسے اپنے ترک ہونے پر فخر تھا یہی وجہ ہے کہ اُس کا لباس، اُس کی وضع کردہ، اُس کا اٹھنا بیٹھنا سب ترکوں کے مطابق تھا۔
تاریخ میں سلطنتِ عثمانیہ نے صرف کفار سے ہی جنگ نہیں کی بلکہ انہوں نے اپنی حکومت بڑھانے کے لیے محمود غزنوی اور امیر تیمور سے بھی جنگ کی ہے جبکہ یہ دونوں حضرات مسلمان ہی تھے۔ اگر انہیں اسلام اور مسلمانوں کا اتنا خیال ہوتا تو یہ کبھی جنگ نہ کرتے۔
‘ امیر تیمور اور چوتھے عثمانی سلطان بایزید یلدرم کے درمیان 1402 میں انگورہ (انقرا) میں جنگ ہوئی تھی۔
یہ جنگ امیر تیمور جیت گیا اور بایزید یلدرم اور اس کا بیٹا محمد اول گرفتار ہو گیا‘ امیر تیمور نے دونوں کو قتل کرنے کے بجائے ہمیشہ کے لیے یرغمال بنا لیا‘ یہ دونوں کو ہر وقت اپنے ساتھ بھی رکھتا تھا اور دربار میں بھی عبرت کی نشانی بنا کر مہمانوں کے سامنے پیش کرتا تھا‘
یلدرم یہ بے عزتی برداشت نہ کر سکا‘ وہ گھٹ گھٹ کر مرنے لگا یہاں تک کہ اس کا آخری وقت آگیا اور اس نے امیر تیمور کا ہاتھ چوم کر دو درخواستیں کیں‘ پہلی آپ میرے انتقال کے بعد میری لاش کو برسہ لے جانے اور آبائی قبرستان میں دفن کرنے کی اجازت دے دیں اور دوسرا میرے بیٹے محمد کو عثمانی سلطنت واپس دے دیں تاکہ عثمان غازی کا چراغ جلتا رہے۔ تیمور اس دن خوش تھا‘ اس نے دونوں شرطوں پر ہاں کہہ دی‘ یلدرم 1403 میں ’’اک شہر‘‘ کے قریب انتقال کر گیا‘ تیمور کی اجازت سے اس کی لاش برسہ پہنچائی گئی اور اسے اورخان کے ساتھ دفن کر دیا گیا۔
امیر تیمور نے بعد میں سلطنتِ عثمانیہ محمد اول کو واپس دے دی۔ تاریخ میں اس طرح کی کئی ایک مثال ہیں جس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ سلطنتِ عثمانیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے راستوں پر نہیں تھی بلکہ وہ ترکوں کی ایک شاندار حکومت تھی جس کا ثبوت سلطان کا لقب جسے بعد میں خلیفہ کردیا گیا، اُن کا لباس جو مرتے دم تک ترک رہا، عثمانیوں کا جھنڈا جو ترکوں کا نشان ہی تھا۔
ہم لوگ نہ جانے کیوں ہر باہر سے آنے والے شخص کو اپنا ہیرو تصور کرلیتے ہیں۔ جبکہ یہ عرب، یہ ترک، یہ مغل، یہ افغان، یہ سلجوکی خود کو اپنی قومیت کے طور پر ہی پیش کرتے ہیں اور اپنی قومی روایتوں کو سب سے اول گردانتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ترک ڈرامہ ارطغل کو عرب میں بینڈ کردیا گیا ہے۔ تانکہ ترکوں کی فتوحات سے متاثر ہوکر عربی عوام اپنی قوم کو کمزور اور بیکار تصور نہ کرنے لگے۔
ہمیں اپنے ہیروز پر فخر کرنا چاہیے، ہمیں اپنے کلچر اور تاریخ کو اپنی عوام تک پھیلانا چاہیے۔ ہماری احساسِ کمزور کی بدولت ہی باہر سے آنے والے لوگ ہم پر مسلط ہوتے رہے اور ہم پر حکومت کرتے رہے۔ ہم نے کبھی اپنے لوکل ہیروز کو ہیرو بننے ہی نہیں دیا، ہم نے کبھی ان کی فتوحات کا جشن نہیں منایا، ہم نے کبھی ان کے کارناموں کو کارنامہ تصور ہی نہیں کیا۔ ہم پہلے عربوں کی واہ واہ کرتے رہے اور پھر ترکوں کی۔ ہم نے اپنی شناخت کو کبھی پنپنے ہی نہیں دیا۔