میں کس طرح چوروں کی پہچان کروں کہ سارے شہر نے پہن رکھا ہے ماسک!

ثناء خان ندیم

خاموشی سے میں یہ تماشہ دیکھتا رہا ۔ ڈر کے مارے سٹور روم سے باہر نکل نہیں پایا۔ نظارہ پورا کا پورا دیکھا ۔ کیسے دو آدمی عرف چور گھر کے کمروں کی پریڈ کرتے رہے۔ پیسہ اور زیور جیبوں میں ڈالتے رہے ۔ دونوں کے ہاتھوں میں پستول ۔ گھر کے ایک کمرے میں تایا جان کو رسیوں سے باندھ کر منہ میں کپڑا دھونس کر خاموش رہنے کا اشارہ ۔ وہ سمجھے گھر پر اور کوئی بھی نہیں۔ انہیں خبر کہاں کہ میں ابھی بھی ہوں۔ وہ الگ بات کہ میں نے خبر ہونے بھی نا دی۔
خیر ! ان کے چہرے صاف دکھ رہے تھے ۔ چہرے تو میلے تھے پر دکھائی مجھے صاف دے رہے تھے۔ منہ ڈھانپ کے نہیں تھا نا رکھا۔ میرے دماغ کے ایکسرے مشین نے ان کی عکس بندی کر لی ۔ بس #ثناءخانندیم ، کیا بتائوں ، وہ دو اور میں ایک اکیلا چھپ کے بیٹھا ہوا ، پھر بھی وہ مجھے ڈھونڈ نا پائے ۔ ان کو معلوم بھی تو نہیں تھا نا کہ میں چھپا بیٹھا ہوں ۔ خیر ! آدھے گھنٹے میں وہ گھر سے باہر نکلے۔ میں سٹور روم سے نکلا ، بیٹ اٹھا کر ان کے پیچھے اور میرے پیچھے سے تایا اشاروں اور ہاتھ پائوں کو ہلا ہلا کر خود کو پہلے کھولنے کا عندیہ دیتے رہے پر میرے سر پر ان دونوں کو مارنے کا بھوت سوار۔
چہرے تو پہلے ہی فلیش بیک پہ موجود تھے۔ گھر سے باہر گلی میں نکلا ٹھیک ان کے بعد۔۔۔۔ تو دیکھا۔
گلی اور سڑک پر سب لوگوں نے ماسک پہن رکھا ہے اور مردوں کے کپڑوں میں پھول، لیس، رنگ تو ہوتا نہیں جو پہچان میں آسانی کروا سکے۔ ہر بندہ مجھے چور ہی لگا۔ میں واپس آ گیا یہ سوچتے کہ اب لوٹنے والے منہ چھپاتے نہیں بہ وقت لوٹ_مار ، پر ہاں ، کاروائی کے بعد ضرور منہ چھپانے لگے ہیں۔ آج کا تازہ فیشن جو بن چکا ہے ۔