خوف آنکھوں سے ٹپک رہا ہے ۔۔۔ایسا لگتا ہے کچھ ہی لمحوں کے بعد ان دیکھی اذیت ناک موت سے دو چار ہونے جا رہے ہیں ۔۔۔
دنیا کی حالت دیکھنے کے بعد لاشوں کا انبار ۔۔۔پیاروں کی عبرت ناک موت نفسا نفسی کا عالم ۔۔۔سسکتے بلکتے اور تڑپتے لوگوں کو دیکھنے کے بعد میں سسک پڑا ۔
کوئی ہے جو ہمیں سنبھال لے ۔۔ ۔آنسوؤں اور آواز ساتھ ساتھ نکل رہے تھے میں نے دونوں ہاتھوں سے اپنا چہرا ڈھانپ لیا اور بے بسی سے گھٹنے زمین پر ٹکا دئیے ۔
ہاں وہ ہے ۔۔۔۔ ایک آواز سماع خراش ہوئی ۔
کہاں ہے وہ ؟ مجھے اس سے ملاؤ ! میں اس سے ملنا چاہتا ہوں ۔ میں نے بے تاب ہوتے ہوئے کہا ۔
بہت خود غرض ہو تم !اس سے پہلے ملنے کی کوشش کیوں نہیں کی ؟
کہاں ہے وہ ؟ میں اس سے معافی مانگ لوں گا اپنی خود غرضی کی ۔۔۔اپنی شقاوت کی۔۔۔اپنی غلطیوں کی ۔۔۔ میرے لوگ مررہے ہیں ،بس مجھے اس سے ملا دو ۔
آواز گونجنے لگی ۔۔۔
کیا زمین کی سیر نہیں کی ؟؟؟ کیا عاد و ارم کو نہیں دیکھا ؟؟؟ کیا فرعون کو نہیں دیکھا ؟؟؟ ان سرکشوں پر عذاب کا کوڑا بقوت نہیں برسا ؟
فَصَبَّ عَلَیْهِمْ رَبُّكَ سَوْطَ عَذَابٍۚۙ(۱۳)
تو ان پر تمہارے رب نے عذاب کا کوڑا بقوت مارا
نعمتیں ملتی ہیں تو کہتے ہومیرے رب نے عزت دی اور آزمائے تو کہتے ہو میرے رب نے خوار کیا ۔
كَلَّا بَلْ لَّا تُكْرِمُوْنَ الْیَتِیْمَۙ(۱۷)
یوں نہیں بلکہ تم یتیم کی عزّت نہیں کرتے
وَ لَا تَحٰٓضُّوْنَ عَلٰى طَعَامِ الْمِسْكِیْنِ
اورآپس میں ایک دوسرے کو مسکین کے کھلانے کی رغبت نہیں دیتے
وَ تَاْكُلُوْنَ التُّرَاثَ اَكْلًا لَّمًّا
اور میراث کا مال ہپ ہپ کھاتے ہو
وَّ تُحِبُّوْنَ الْمَالَ حُبًّا جَمًّاؕ(سورہ فجر)
اور مال کی نہایت محبّت رکھتے ہو
آؤ ! اُسے منا لیں ۔۔۔آؤ ! اسے راضی کر لیں ۔
وہ تو بہت پیارا ہے آؤ اس کی منشاء کے مطابق جینے کا سامان کریں۔ کیونکہ بچائے گا صرف وہ ہی اور وہ بچا لے گا تمہیں، اس نے بچایا تھا آگ سے، کنوئیں میں محفوظ رکھا، بدر میں فتح سے ہمکنار کیا۔،
بشرط یہ کہ تم اس کی رضا میں راضی ہو جاؤ۔
آؤ! اس موقع پر یتیموں کو یاد رکھیں ۔۔۔آؤ !حق دار کو اس کا حق دے دیں ۔۔۔
آؤ! مسکینوں کو کھانا کھلاتے ہیں ۔۔۔۔آؤ !اس امتحان کی گھڑی میں اسے راضی کر لیں ۔۔۔
وہ راضی ہو گیا تو کوئی وبا ،وبا نہیں رہے گی ۔۔۔وہ طاقت والا ہے وہ قوت والا ہے۔