تحریر: امبرین زیدی، بھارتی صحافی و بلاگر
ڈئیر جنرل،
ہم حاضر و ریٹائیرڈ افواج کے خاندان اپنی فوج کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ہم ڈرتے نہیں مگر ہاں ہم اُن کی حفاظت کے لیے ہر وقت دعا ضرور کرتے ہیں۔ لیکن ہمیں یہ جاننے کا حق ہے کہ گلوان ویلے میں کیا ہوا؟ میں یہ خوب سمجھتی ہوں کہ یہ پالیسی کا حصہ ہے کہ ساری باتیں اور واقعات پبلک کو نہیں بتائے جاتے، لیکن اس جدید دور میں سوشل میڈیا پر بہت سی تصاویر وائرل ہورہی ہیں اور بہت سی بُری خبریں بھارتی افواج کے حوالے سے گردش کر رہی ہیں۔ ایسی صورتِ حال میں ہم کہا جائیں اور کس پر بھروسہ کریں؟
اگر چین کی جانب سے سرحد میں مداخلت نہیں کی گئی تو ہمارے اتنے فوجی جوان اور آفیسر کمانڈنگ کیسے مارے گئے؟
نہ صرف ہمارے جوانوں کو قتل کیا گیا بلکہ بے دردی سے ان کی لاشوں کی بے حرمتی بھی کی گئی، کیوں؟
کیا وہ اپنی مرضی سے دشمن کی سرحد میں گھُس گئے تھے اور قتل کردیے گئے؟ جیسا کہ چین کی جانب سے بیان آیاہے۔
لداخ کے مسئلے کو لے کر روزانہ کی بناد پر کیوں نئی خبریں سامنے آرہی ہیں؟
کیا ہم کبھی حقیقت جان پائیں گے؟
کیا ہمارے جوان ایسے ہی قتل ہوتے جائیں گے؟
ہمارے فوجی سیاست کی نظر کب تک ہوتے رہیں گے؟ ایسا لگتا ہے کہ چین سے زیادہ آپ سے ہمیں خطرہ ہے۔ آپ کے ایکشن اور آپ کا سوتیلا برتاوُ ہمیں زیادہ پریشان کرتا ہے۔ کب چیف آف دی ڈیفیس اسٹاف کو تعینات کیا جائے گا اور انڈین آرمی، نیوی اینڈ ائیر فورس ایک چھتری کے نیچے آئیں گے اور انڈیا زیادہ محفوظ ہاتھوں میں ہوگا۔
ہمیں تو یہ بتایا گیا تھا کہ اس نظام میں ہم زیادہ محفوظ ہیں لیکن یہاں تو سب کچھ الٹا ہورہا ہے۔ ہمیں اندرونی اور بیرونی دونوں محاذوں پر مشکلات کا سامنا ہے۔اس کے باجود کہ ہر بھارتی شہری اپنی فوج کے ساتھ کھڑا ہے لیکن فوج کے حوصلے پھر بھی پست ہیں جس کی وجہ آپ کے غلط فیصلے اور پالیسیز ہیں۔ لداخ والا معاملہ اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ انڈین افواج کس قدر بے بس نظر آرہی ہے صرف اور صرف آپ کی مداخت اور سیاست کی وجہ سے۔ اب بھی وقت ہے ایسے فیصلے کیے جائیں جس کی وجہ سے ہمارے جوانوں کا خون نہ بہے۔ ہم اپنے افواج صرف اور صرف آپ کے غلط فیصلوں کی وجہ سے کھو رہے ہیں اور ان کا خون آپ کے ہاتھوں میں ہے، ان کے خون کے ذمہ دار آپ کے سیاسی فیصلے ہیں۔
مجھے معلوم ہے یہ ایک اچھا احساس ہے کہ حکومت کا ایک طاقتور ترین شخص آپ کے گاوُں سے ہے اور اُس کا ہاتھ آپ کے اوپر ہے۔ وہ آپ کو نہ صرف سپورٹ کرتا ہے بلکہ آپ کو پروموشن دینے میں بھی مدد دیتا ہے۔ جو آپ کا کام دوسروں کو دیتا ہے تانکہ آپ حکومت کی خدمت بہتر طریقے سے کر سکیں۔ ہر کوئی آپ کی طرح قسمت والا نہیں ہوتا۔
آپ سوچیں اتنی حمایت، مضبوط کنیکشن اور طاقت کے ساتھ آپ اس ادارے کو کتنا شاندار طریقے سے چلا سکتے ہیں، اگر آپ اسے اپنے خاندان کا حصہ سمجھیں تو۔ لیکن آپ باس بن کر بیٹھے ہو اور اپنے عہدے کو انجوائے کر رہے ہو۔
صرف ایک بار اپنے دل پر ہاتھ رکھیں اور سوچیں۔
کیا آپ نے اپنے عہدے کے ساتھ انصاف کیا؟
کیا آپ اپنے بھارتی فوجیوں کے لیے کھڑے ہوئے؟
آپ نے خود کو بلی کا بکرا بنایا تانکہ آپ کو استعمال کرکے کوئی اور فیصلے کر سکے اور آرمی کو نقصان پہنچا سکے؟
کیا آپ ہمارے فوجی جوانوں کی موت کے ذمہ دار نہیں؟
مجھے یقین ہے آپ ان سب سوالوں کے جواب جانتے ہو۔ اپنے جوانوں کے بارے میں سوچیں جو سرحدوں پر لڑ رہے ہیں اورزیرو ٹیمپریچر پر بغیر کسی حفاظتی اقدامات کے مارے جا رہے ہیں۔ اگر آپ ایسا ہی کرنا چاہتے ہیں توکریں ہم آپ کے ساتھ ہیں۔
لیکن اخلاقی بنیادوں پر استعفیٰ دینے کے بارے میں کیا سوچا ہے؟
ہم اپنے افواج کے ساتھ کھڑے ہیں، ہم آپ سے درخواست کرتے ہیں کہ ہمیں یقین دلائیں کہ ہمیں دھوکہ نہیں دیا جائے گا، افواج کو ہتھیاڑ رکھنے کا نہیں کہا جائے گا۔ ہم نہیں چاہتے کہ ہمارے افواج اسی طرح چین کے ہاتھوں قتل ہوتے جائیں۔
…………………………….
امبرین زیدی بھارت کی مشہور صحافی اور بلاگر ہیں۔ وہ اپنی خدما ت کی وجہ سے بہت سے ایوارڈ جیت چکی ہیں۔ ایک فوجی کی بیوی ہیں اور وہ ریٹائیڑڈ فوجیوں، اُن کی بیوہ اور یتیموں کے لیے ایک این جی اوو چلاتی ہیں۔