محکمہ پولیس میں امتیازی سلوک، جوان افسران کے عتاب کا شکار

سمیر قریشی

دنیا تیزی سے ترقی کررہی ہے، اور اس ترقی کا راز پالیسی بنانے والوں کی مثبت سوچ اور لاگو کرنے والوں کاطرز عمل ہے لیکن صوبہ سندھ جوکہ پہلے ہی شرمناک حد تک طبی سہولیات سے محروم تھا اور پھر کورونا کی وباء نے جھوٹےدعووں کی قلعی کھول کررکھ دی
سرکاری اعدادوشمار کے مطابق سندھ میں بتیس ہزار نو سو دس کورونا وائرس کےمریض رپورٹ ہوچکے جن میں چھبیس ہزار سے زائد تعداد صرف کراچی کی ہے
اس وبائی صورتحال میں جہاں ڈاکٹرز اور طبی عملےکوفرنٹ لائن ورکرز کا درجہ دیاگیا وہیں پولیس افسران اور جوانوں نے بھی اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر عوام کو اس وباء سے محفوظ رکھنے میں اپنا کردار ادا کیالیکن بیوروکریسی کی منطق پولیس افسران کو اب موت کےمنہ میں دھکیلنے کا بندوبست کرنےسےباز نہیں آرہی
پولیس ٹریننگ سینٹرسعیدآباد کراچی میں اسوقت اپرکورس کےلیے 400 سےزائد اہلکار رجسٹرڈ ہیں جبکہ دیگر ٹریننگ سینٹرز میں بھی ٹرینیز موجود ہیں جنکی ابتدائی تربیت مکمل ہوچکی ہےاور دو امتحانات جن میں فرسٹ اور سیکنڈ ٹرم لیےجاچکے ہیں اور پھر کورونا کی وباء کےابتداء میں فائنل امتحان کا شیڈول آچکا تھا مگر تمام ٹرینرز کو فائنل امتحانات موخر کرکے اپنے اپنے یونٹس میں واپس رپورٹ کروادیا گیا واضح رہے کہ اسوقت پاکستان اور بالخصوص سندھ میں یہ کورونا کاآغاز تھا اور اب جبکہ بتیس ہزار سے زائد کیسز رپورٹ ہوچکے ہیں تو پولیس کے ٹریننگ شعبہ کے اعلی افسران نے ایک شاہی حکمنامہ صادر فرمایا جسکے تحت انکےامتحانات لیے جانے ہیں یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ پی ٹی سی سعیدآباد کےعملے میں 210 پولیس اہلکاروں کا کورونا ٹیسٹ کیا گیا تھا جن میں سے 58 اہلکاروں کا نتیجہ مثبت آیا جبکہ 250 اہلکاروں کے ابھی ٹیسٹ ہونا باقی ہیں،
سندھ پولیس کے 5000 سے زائد ٹرینرز اسوقت شدید تحفظات کا شکار ہیں کیونکہ تین ماہ بعد امتحانات کروانے کی نرالی منطق گلے پڑسکتی ہے اور اسکےنتیجے میں ان فرنٹ لائن ورکرز کی جان خطرے میں پڑسکتی ہے
ایک اور دہرے معیار کا ذکر کرنا یہاں ضروری ہےکہ اعلی افسران نے اپنے SMC,, MCMC اور اسٹاف کورسز کا آغاز آن لائن کروایا ہےجبکہ پولیس کے ٹرینرز کےلیے امتیازی سلوک اپنایا ہے جو کہ غیرمنصفانہ اور غیر اخلاقی عمل ہے،
ایک اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ پنجاب میں بھی ابتدائی امتحانات کی روشنی میں پاس آوٹ ہونیوالوں کو پروموٹ کردیا گیا ہے
پورے صوبے میں ایس او پی پر عملدرآمد کرانےکےلیے نہ تو وزراء سڑکوں اور گلیوں میں نکلے ہیں اور نہ ہی ڈاکٹرز بلکہ قانون نافذ کرنیوالے اداروں کےاور پولیس کے افسران اور جوان ہی ہیں جوکہ سماجی فاصلہ، ماسک کا استعمال اور وقت سے کاروباری مراکز کو بند کرانے جیسی ہدایات پر شہریوں کوعمل کروارہے ہیں گو کہ یہ انھیں ذمہ داری سونپی گئی مگر ان ہی پولیس والوں کو جب اپنےآبائی گھر یعنی تربیتی مرکز پر ہی قوانین اور ایس او پیز کی خلاف ورزی کےلیےاکسایا جائے تو یقینا یہ عمل چراغ تلے اندھیرا کےمترادف ہوگا
کیونکہ دوران ٹریننگ سماجی فاصلہ برقرار رکھنا کسی صورت بھی ممکن نہیں ہوگا، اور جب اسلحہ ودیگر آلات استعمال کرنے کا معاملہ آئیگا تو لامحالہ اس سے قبل دیگر افسران و جوان اس اسلحے یا آلات کو استعمال کرچکےہونگے جو کہ ایس او پی کی دھجیاں اڑانے جیسا ہے
ایک ساتھ دوڑ لگانا، اور تربیت کےدوران مختلف مراحل سے گذرنا بھی ایس اوپی کی خلاف ورزی ہوگی۔۔
سوال یہ ہے کہ کیا وفاقی یا سندھ حکومت کی جاری کی گئی ایس او پیز پولیس کے علاوہ سب کےلیے ہیں ؟

اور وہ ایس او پیز جو عالمی ادارہ صحت نے دیں اس میں کیا پولیس شامل نہیں ہے؟؟
خدارا پولیس ڈیپارٹمنٹ پر رحم کریں اور ارباب اختیار اس حکم شاہی کانوٹس لیں۔۔
اگر انھیں پروموٹ نہیں کیا جاسکتا تو آن لائن امتحانات سمیت دیگر طریقےبھی اپناۓ جاسکتے ہیں، شعبہ پولیس میں بھی بیشتر ایسے حاضر سروس افسران موجود ہیں جوکہ بہترین تجاویز دے سکتے ہیں اور طبی ماہرین سے بھی تجویز لی جاسکتی ہے ۔۔اور
مشاورت کےذریعے ہزاروں پولیس افسران کو وباء سے محفوظ رکھا جاسکتا ہے،
اس وباء کا شکار ہوکر 8 پولیس اہلکار شہید اور 350. سے زائد متاثر ہوچکے ہیں اور افسوسناک بات یہ ہےکہ محکمہ پولیس نے تاحال جان کی بازی ہارنے والوں کو شہید قرار دیکر اسکا نوٹیفیکیشن جاری نہیں کرسکی ہے

اس وقت جدید ٹیکنالوجی کو اپنا کر اور مثبت طرز عمل کے ذریعے ہم بھی ترقی یافتہ صوبہ یا ملک کہلا سکتے ہیں لیکن کوئی ہے جو آگے بڑھے ؟؟؟؟؟آواز اٹھائے؟؟؟ اور پولیس کواس وباء سے بچائے؟؟