صنف نازک کا ہے اک سوال

ثناء خان ندیم

جا جا کر بتاؤں کس کو میں یہ حال

نا کرنے دے زمانہ مجھےکوئی سوال

جتنے منہ ہیں یہاں اتنے ہی ہیں گمان

ادھر بھی برا حال ادھر بھی برا حال

ایک تحفہ ملا ہے جو ماں باپ کو یہ

کہلایا جو ہر سو رحمت کی اک مثال

ماں! تجھ سے پوچھنا ہےمجھے  فقط

چپ چاپ کیوں سہوں ظلم یہ بے شمار؟

آہ!  مجھ پہ جو یہ بیت رہی ہے

ہاں! روش یہ پرانی ہزار ہا سال

بیٹے کو رکھو تم سر آنکھوں پر

بیٹی نا جائے بس دیوار کے پار

بیٹی کا ہوں روپ ، بہن بھی میں

بیوی کا پاک رشتہ ، ممتا کا وقار

جو گونگے پہرے پھرتے ہیں لوگ

نا نفس کی پاکیزگی نا روح کا ملال

غیرت جو کبھی بھی یاں جاگی ہے

اندھوں کی بستی میں عقل خستہ حال

دلیل و دلائل سب راکھ ہی سمجھے

یہ مرد جو تحفظ میں رہا ہمیشہ ہار

عزت بھی لٹے اور قصور بھی آپ

 صنف نازک کا کیوں نا ہو پرچار

اک عمر ایسی کہ بچپن کا ہو آغاز

نا عمر دیکھی نا عورت کا لحاظ

دو چار روز کا ماتم ہے قسمت میں

مردوں کی نگری  مردوں کی آواز

کچھ  ساتھ  دیتے ساتھ چلتے ہیں

کچھ روح  چھلنی کرنے کا جواز

کہتی ہے میڈیا نا رہو چپ چاپ

عزت کا جنازہ سیاست کے دوار

تم کیا جانو وہ معصوم سا منطق

چھلنی ہوئے سپنے موافق تلوار