دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انساں کو

حارث حیدر

آج دنیا کے تمام ممالک کرونا وائرس جیسی خطرناک وبا سے لڑ رہے ہیں۔ جہاں دنیا کے ترقی یافتہ ممالک نے بھی گھٹنے ٹیک دیے ہیں اور اپنی معیشت کو تباہ و برباد ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ یہ حال ہے ترقی یافتہ ممالک کا تو سوچیں ان غریب ممالک کی صورتحال کتنی بد ہوگی جن کی معیشیت کا پہیہ چلتا ہی قرضوں پر تھا۔ ایسے ہی غریب ممالک میں آپ کا اور میرا پیارا وطن پاکستان بھی ہے۔ جہاں کرونا وائرس کی وباء تیزی سے پھیلتی جارہی ہے اور حکومتی اقدامات کا فقدان اور عوام کی کم عقلی کی بناء پر اسے قابو کرنا بھی مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ اسی دوران گزشتہ ڈیڑھ مہینے سے ملک بھر میں لوک ڈاؤن نامی ایک اور وباء پھوٹ پڑی ہے جو صرف غریبوں پر ہی حملہ آور ہوتی ہے۔ ماہرین بتاتے ہیں کہ اس وبا میں پہلے آپ بے روزگار ہوتے ہیں۔ پھر بھوک وپیاس آپ کو اور آپ کے گھر والوں کو ستاتی ہے اور پھر تین دنوں میں یہ آپ کے پورے خاندان کو موت کی آغوش میں میٹھی نیند سلا دیتی ہے۔ ماہرین اس وباء سے بچاو کا واحد حل پیٹ بھر کھانا بتاتے ہیں جو کہ اس لوک ڈاؤن نامی وباء میں بہت مشکل ہے لیکن کہتے ہیں کہ خدا بہت رحیم ہے اور اس کی رحمت ہمیں جی ڈی سی، ایدھی، سیلانی، الخدمت اور دیگر فلاحی اداروں کی صورت میں دکھتی ہے۔ انہیں دیکھ کر مجھے مولانا رومی کی ایک حکایت یاد آ جاتی ہے کہ "خدا تک پہنچنے کے بہت سے راستے ہیں لیکن میں نے خدا کا پسندیدہ راستہ اس کی مخلوق کی خدمت اور محبت کو چنا”۔
خدا کی مخلوق کی خدمت ہی عین عبادت ہے اور یہ فلاحی ادارے دن رات اس عبادت میں مصروف ہیں۔ ان فلاحی اداروں نے یہ بیڑا اٹھایا ہے کہ ہندو مسلمان سکھ عیسائی یا کسی اور مذہب سے تعلق رکھنے والے کا مذہب اہم نہیں اس کا بھوکا ہونا اہم ہے اور اس کے گھر میں راشن پہنچانے کی ذمہ داری ان اداروں کی ہے (یہاں میں واضح کرتا چلوں کہ یہ ذمہ داری ریاست کی ہے جب ریاست اپنی ذمہ داریوں سے منہ موڑ لے تو ان اداروں کو مجبوراً آ گے آنا پڑتا ہے )
پاکستان میں بسنے والے لوگوں میں دو قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ ایک وہ جو خود آگے بڑھ کر ہر مصیبت کو اپنا سمجھتے ہیں اور لوگوں کی مدد کرتے ہیں جن میں یہ فلاحی ادارے سرفہرست ہیں اور بہت سے لوگ انفرادی طور پر بھی مدد کرتے ہیں۔ دوسرے وہ جو نہ خود کام کرتے ہیں اور نہ دوسروں کو کام کرتا دیکھ اچھا محسوس کرتے ہیں ہر وقت تنقید کرنا ان کا پسندیدہ مشغلہ ہے اور بدقسمتی سے ہمارے یہاں ایسے لوگ زیادہ پائے جاتے ہیں۔ گزشتہ کہیں ہفتوں سے سوشل میڈیا پر فلاحی اداروں کو تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے اور جھوٹے اور بے بنیاد الزامات کے نشتر چلائے جارہے ہیں اور ایسا کرنے والوں کا تعلق مندرجہ بالا بیان کی گئی دو قسموں میں سے دوسری قسم سے ہے جو نہ خود آگے بڑھتے ہیں مصیبت میں اور نہ ہی کسی اور کو بڑھتا دیکھ سکتے ہیں۔ اس مشکل کی گھڑی میں ہمیں ان اداروں پر تنقید نہیں کرنی بلکہ ان کا بازو بننا ہے اور دکھی انسانیت کی خدمت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ مذہب میں سے انسانیت اور خدمت نکال دی جائے تو صرف عبادت رہ جاتی ہے اور محض عبادت کے لئے پروردگار کے پاس فرشتوں کی کوئی کمی نہیں۔ بقولِ شاعر

درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ اطاعت کے لئے کچھ کم نہ تھے کرّوبیاں