جھوٹوں کی بستی

چوہدری اُسامہ سعید

اکثر و بیشتر لوگوں کے نزدیک سچ کی اہمیت فقط اپنے فائدے تک ہی محدود ہے ۔ مثال کے طور پر آپ کسی مشکل وقت سے گزر رہے ہیں اور سامنے والے کو اپنی طرف مائل کرنے کے لیے، موصوف کے دل میں اپنے لئے ہمدردی کا جذبہ اُجاگر کرنے کے لیے آپ سچ پر مبنی دلیلوں کا بھاشن دیں گے تاکہ آپ کا مفاد آپ کی امیدوں پر پورا اُترے ۔

ٹھیک اِسی طرح بعض اوقات سچ اپنا حقیقی معیار کھو دیتا ہے، کبھی منفی چیزوں کو فروغ دینے میں سچ پر مبنی دلائل کے انبار اِس ہوشیاری کے ساتھ دیے جاتے ہیں کہ بندہ حیرت کے عالم میں دیکھتا جائے بس۔ لوگ سچ اور جھوٹ کی تمیز کرنا بھول گئے ہیں جھوٹ کے لیے سچ اس قدر بولا جاتا ہے گویا محسوس ہوتا جیسے خاصا نیک و پارسائی والے کام کو فروغ دیا جارہا ہو۔ افسوس یہی دوہرا معیار ہمیں لے ڈوبا ہے۔ ہمارے سامنے عیاشی اور دنیا کی رنگینی نمایاں اور اپنا اثر ہمارے ذہن میں کر بیٹھی ہے یہی وجہ ہے کہ ہماری ناکامیاں بھی ہمیں کامیابیاں دِکھائی دیتی ہیں جو رفتہ رفتہ بربادی کی طرف دھکیل رہی ہے ۔

افسوس یہ ہے کہ ہماری سوچ کا رجحان بھی جھوٹ کی طرف مائل ہے۔ ہمارے دھندے جھوٹ سے چلتے ہیں، یہ ہمارا پیشہ اور کمانے کا ذریعہ بن گیا ہے جسے آج کل ماڈرنائزیشن اور انسان کی ضرورت ہے کہا جاتا ہے ۔ اِسی جھوٹ کے سبب ہماری رشتہ داریاں نبھائی جاتی ہیں، کیونکہ سچ بولنے پر آپس میں قطعِ تعلقی، قتل و غارت، قید، اور کئی رشتے ایسے ہیں جو سچ بولنے کے سبب آج تک ایک اور جُڑ نہ سکے ۔ ڈر اِس بات کا ہے خدانخواستہ ہماری آنے والی نسلوں میں یہ چیز نہ پائی جائے کیونکہ یہ جھوٹ ہماری زبان، فطرت اور رگ رگ میں شامل ہوچکا ہے ۔

ہمیں اشد کوشش کرنے کی ضرورت ہے کہ اِس جھوٹ کی عادت کو ختم کیا جائے کیونکہ پروردگار نے ہمیں تمام مخلوقات میں سب سے افضل بنایا، ہمیں اشرف المخلوقات کا نام دیا۔ ہمیں یہ فطرت زیب نہیں دیتی ہے ۔ کوشش کرنے سے کیا کچھ نہیں ہوجاتا تو ضرورت اِس امر کی ہے کہ جھوٹ کا دامن چھوڑ کر سچ کا ساتھ دینا ہے کیونکہ یہی سچ دنیا و آخرت دونوں میں ہماری بھلائی کا ذریعہ بن سکتا ہے۔