جس سمت دیکھتا ہوں نظارہ علی کا ہے

حارث حیدر

جنگ بدر کے موقع پر کفار اپنے بڑے بڑے بتوں کو تھامے ہوئے آئے تو انہوں نے نعرہ بلند کیا کہ ہمارے پاس عزہ ہے تمہارے پاس کوئی عزہ ہے؟(عزہ بت کا نام ہے ) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں وہاں نظر دھڑائی اور فرمایا کہ میری طرف سے انہیں جواب کون دے آئے گا؟ تو مولا علی علیہ السلام نے فرمایا کہ حضور میں دوں گا جواب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا علی جائیں اور انہیں کہیں کہ ہمارے پاس مولا ہے تمہارے پاس مولا تو کوئی نہیں ہے۔ (یہاں مولا سے مراد اللہ تعالی کی ذات ہے )


10 ہجری کے آخری ماہ ذلحجہ میں حجۃ الوداع کے مراسم تمام ہوئے اور مسلمانوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے حج کے اعمال سیکھے۔ حج کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینے جانے کی غرض سے مکہ کو چھوڑنے کا اعلان کرتے ہوئے قافلے کو کوچ کا حکم دیا۔ جب یہ قافلہ جحفہ سے تین میل کے فاصلے پر رابغ نامی سرزمین پر پہنچا تو غدیر خم کے نقطے پر جبرائیل امیں وحی لے کر نازل ہوئے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس آیت کے ذریعے خطاب کیا: اے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! اس پیغام کو پہنچا دیجئے جو آپ کے پروردگار کی طرف سے آپ پر نازل ہو چکا ہے اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو گویا رسالت کا کوئی کام انجام نہیں دیا۔ اللہ آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا۔
آیت کے انداز سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے کوئی ایسا عظیم کام رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد کیا ہے جو پوری رسالت کے ابلاغ کے برابر ہے اور دشمنوں کی مایوسی کا سبب بھی ہے۔ لہذا قافلے کو رکنے کا حکم دیا گیا جو لوگ آگے نکل گئے تھے وہ پیچھے کی طرف پلٹے اور جو پیچھے رہ گئے تھے وہ آ کر قافلے سے مل گئے۔ ظہر کا وقت تھا اور گرمی اپنے شباب پر تھی حالت یہ تھی کہ کچھ لوگ اپنی عبا کا ایک حصہ سر پر اور دوسرا حصہ پیروں کی نیچے دبائے ہوئے تھے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے درخت پر چادر ڈال کر سائبان تیار کیا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹوں کے کجاؤ سے بنے ہوئے ممبر کی بلندی پر کھڑے ہو کر بلند آواز میں ایک خطبہ ارشاد فرمایا جس کا خلاصہ یہ ہے۔
حمد و ثناء اللہ کی ذات سے مخصوص ہے ہم اسی پر ایمان رکھتے ہیں اسی پر توکل کرتے ہیں اور اسی سے مدد چاہتے ہیں ہم برائی اور برے کاموں سے بچنے کے لئے اس اللہ کی پناہ چاہتے ہیں۔ جس کے علاوہ کوئی دوسرا ہادی و رہنما نہیں ہے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے اور محمد اس کا بندہ اور رسول ہے۔
ہاں اے لوگو!وہ وقت قریب ہے جب میں دعوت حق پر لبیک کہتا ہوا تمھارے درمیان سے چلا جاؤں گا تم بھی جواب دہ ہو اور میں بھی جواب دہ ہوں۔
اس کے بعد آپ نے فرمایا کہ میرے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟ کیا میں نے تمہارے بارے میں اپنی ذمہ داری کو پورا کردیا ہے؟ یہ سن کر پورے مجمع نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نے بہت زحمتیں اٹھائیں اور اپنی ذمہ داریوں کو پورا کیا۔ اللہ آپ کو اس کا بہترین اجر دے۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم گواہی دیتے ہو کہ اس پوری دنیا کا معبود ایک ہے اور میں محمد اس کا بندہ اور رسول ہے؟ اور جنت و جہنم وآخرت کی جاویدانی زندگی میں کوئی شک نہیں ہے؟ سب نے ایک آواز میں کہا ہم گواہی دیتے ہیں۔ اس کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے لوگو میں تمہارے درمیان دو اہم چیزیں چھوڑے جارہا ہوں میں دیکھوں گا کہ تم میرے بعد میری ان دونوں یادگاروں کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہو۔
اس وقت ایک شخص کھڑا ہوا اور بلند آواز میں سوال کیا کہ ان دو اہم چیزوں سے آپ کی کیا مراد ہے؟
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک اللہ کی کتاب ہے جس کا ایک سرا اللہ کی قدرت میں ہے اور دوسرا تمہارے ہاتھوں میں ہے اور دوسرے میرے عترت اور اہل بیت ہیں اللہ نے مجھے خبر دی ہے کہ یہ ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہ ہونگے۔
اس کے بعد حضرت علی علیہ السلام کا ہاتھ پکڑ کر اتنا اونچا اٹھایا کہ دونوں کی بغلوں کی سفیدی سب کو نظر آنے لگی پھر علی کو سب لوگوں سے متعرف کروایا۔
اس کے بعد فرمایا: کون ہے جو مومنین پر ان کے نفوس سے زیادہ حق تصرف رکھتا ہے؟
سب نے کہا: اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں۔
پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ میرا مولا ہے اور میں مومنین کا مولا ہوں اور میں ان کے نفوسوں پر ان سے زیادہ حق تصرف رکھتا ہوں۔
ہاں اے لوگو! جس جس کا میں مولا ہوں اس اس کا یہ علی مولا ہے۔ اے اللہ تو اس کو دوست رکھ جو علی کو دوست رکھے اور اس کو دشمن رکھ جو علی کو دشمن رکھے۔ اس سے محبت کر جو علی سے محبت کرے اور اس پر غضب ناک ہو جو علی پر غضبناک ہو۔ اس کی مدد کر جو علی کی مدد کرے اور اس کو رسوا کر جو علی کو رسوا کرے اور حق کو ادھر موڑ دے جدھر علی مڑیں۔
اب اللہ کے انصاف کا تقاضہ ہے کہ اللہ فرماتا ہے کہ محبوب دین تکمیل ہو گیا ہے لیکن علی نے غزوہ بدر میں ہزار کفار کے سامنے مجھے مولا کہا تھا اب ڈیڑھ لاکھ مسلمانوں کا مجمع ہے اے نبی آپ علی کو مولا کہہ کر احسان چکائیں۔
حضرت علی علیہ السلام کے فضائل اور کمالات کے بارے میں کچھ لکھنا جتنا آسان ہے اتنا مشکل بھی ہے اس لیے کہ حضرت علی علیہ السلام فضائل و کمالات کا ایسا بیکراں سمندر ہے جس میں انسان جتنا غوطہ لگاتا جائے گا اتنا زیادہ فضائل کےموتی حاصل کرتا جائے گا۔ یہ ایک ایسا سمندر ہے جس کی تہہ تک پہنچنا ناممکن ہے۔ کیا خوب کہا خلیل ابن محمد نے جب ان سے امیر المومنین کے فضائل کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا: میں کیسے اس شخص کی توصیف و تعریف کروں جس کے دشمنوں نے حسادت اور دوستوں نے دشمنوں کے خوف سے اس کے فضائل پر پردہ پوشی کی ہو ان دو کرداروں کے درمیان مشرق سے مغرب تک فضائل کی دنیا آباد ہے۔
بقولِ شاعر

منظر فضائے دہر میں سارا علی کا ہے
جس سمت دیکھتا ہوں نظارہ علی کا ہے
ہم فقر مست چاہنے والے علی کے ہیں
دل پر ہمارے صرف اجارا علی کا ہےِ