اسلام آباد: پاکستان سے تعلق رکھنے والی اسپورٹس پریزینٹر زینب عباس کا بھارت چھوڑنے کے بعد پہلا بیان سامنے آگیا۔
زینب عباس نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس پر شیئر کردہ پوسٹ میں کہا کہ میں نے ہمیشہ اپنے پسندیدہ کھیل کے لیے سفر کے مواقع ملنے پر خود کو انتہائی خوش قسمت تصور کیا ہے اور بھارت میں میرا قیام خوش گوار اور لوگوں کا رویہ مشفقانہ تھا۔
اُن کا کہنا ہے کہ مجھے نہ تو بھارت چھوڑنے کا کہا گیا نہ ہی ملک بدر کیا گیا۔ مجھے فوری طور پر وہاں کوئی خطرہ نہیں تھا، تاہم انٹرنیٹ پر اپنے خلاف آنے والے ردعمل سے خوف زدہ ہوگئی تھی۔ اس صورت حال سے میرے خاندان اور سرحد کے دونوں طرف کے دوست بھی پریشان تھے۔
زینب عباس نے اپنی پوسٹس پر معذرت کرتے ہوئے کہا کہ میں ان پوسٹس سے ہونے والی تکلیف کو سمجھ سکتی ہوں اور اس پر افسوس کرتی ہوں۔ اس طرح کی زبان کے لیے کوئی عذر یا گنجائش نہیں اور جن لوگوں کی بھی دل آزاری ہوئی میں اُن سے معافی چاہتی ہوں۔ میں اُن لوگوں کی شکر گزار ہوں جنہوں نے اس مشکل وقت میں میرے لیے فکرمندی اور تعاون کیا۔
خیال رہے کہ زینب عباس کرکٹ ورلڈکپ میں بطور پریزینٹر اپنے فرائض انجام دینے بھارت پہنچی تھیں تاہم انہیں بھارت میں مسلسل دباؤ کا سامنا کرنا پڑا جس کے بعد انہوں نے حفاظتی اقدام کے طور پر 9 اکتوبر کو بھارت چھوڑ دیا تھا۔
زینب عباس کے قریبی ذرائع نے ان کے بھارت سے دبئی پہنچنے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہوں نے یہ قدم اپنی فیملی اور دیگر براڈ کاسٹرز کے مشورے کے بعد اٹھایا ہے۔
بھارت میں ایک وکیل نے زینب عباس پر بھارت مخالفانہ ٹوئٹس کرنے کا الزام لگا کر مقدمہ درج کرنے کی درخواست دی تھی، زینب عباس کی جانب سے یہ ٹوئٹس کئی سال پہلے کی گئی تھیں۔