الفاظ کے ذریعے واقعات اور حالات کی تصویر کشی کرنا اور واقعات کو جلا بخشنا واقعی انسانی تخیل کا بڑا فن ہے لیکن اس سے بڑا فن واقعات کی تصویر کھینچ کر انہیں زندگی بخشنا ہے۔ زندگی کے مناظر کو اپنی اصلی حالت میں تاریخ میں محفوظ کرنے والے فنکار کو ہم فوٹو گرافر کہتے ہیں۔ دنیا میں آج کل ان کو فوٹو جرنلسٹ کہا جاتا ہے۔
الفاظ کے ذریعے منظر نگاری ہو یا پھر انہی مناظر کی تصویر کشی ہو، دراصل دونوں ہی صحافت سے وابستہ ہیں۔ صحافت کا قلم اور کیمرہ دونوں سے گہرا تعلق ہے۔ قلم صحافت کی زندگی ہے تو کیمرہ اس کی سانس ہے۔ زندگی سانس کی بدولت ہے اور سانس نہیں تو زندگی نہیں۔ لیکن کچھ قلم کار کمال کے فوٹوگرافر بھی ہوتے ہیں اور کچھ فوٹو گرافر بیک وقت کمال کے قلم کار بھی ہوتے ہیں۔ بہت ہی کم لوگ بیک وقت دونوں صلاحیتوں سے پُرباش ہوتے ہیں۔ ملک کے مایہ ناز فوٹو گرافر زاہد حسین ان چند گِنے چُنے لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے آدھی صدی سے زائد عمر تصویر کشی کرتے گذاری اور ملک کے لاکھوں تاریخی واقعات کو انتہائی کٹھن حالات میں محفوظ کیا۔ چونکہ ہم لوہے جیسے سماج کے وہ لوہار ہیں جنہیں ہیروں کی شناخت نہیں یا پھر ہم فن کے اقدار سے بے خبر قوم ہیں ورنہ زاہد حسین جیسے عظیم فوٹوگرافر کے پاس آج اپنا نجی میوزیم ہونا چاہئے تھا مگر زاہد حسین قدیم دور کی تصاویر کی لاکھوں کالی کاپیوں ( نیگیٹوز) کے ضایع ہونے پر رنجیدہ ہیں۔ مساوات لاہور پھر مساوات کراچی کے چیف فوٹو گرافر کی حیثیت میں بھٹو خاندان کی ہر ہر سرگرمی کو زاہد حسین نے اپنے کیمرہ میں محفوظ کیا۔ 1970 سے لے کر ابھی دو تین سال قبل تک زاہد حسین واقعات کی فوٹو گرافی کرتے رہے لیکن خرابی صحت کی وجہ سے وہ لائینز ایریا میں اپنے گھر تک محدود ہوگئے ہیں۔
زاہد حسین کی ہر تصویر تاریخ بیان کرتی ہے اور ان کی ہر تحریر بھی تاریخ کی تصویر کشی ہے۔ زاہد بھائی دنیا کی بڑی نیوز ایجنسیوں رائیٹرز اور اے پی کے لئے عرصہ دراز تک کام کرتے رہے اور ڈان اور جنگ جیسے اداروں میں چیف فوٹو گرافر بھی رہے۔ ان کو آدھی صدی کا ایک ایک واقعہ آج بھی یاد ہے اور اپنی ایک ایک تصویر کے پس پردہ حالات بھی یاد ہیں۔ میں اپنی آج کی تحریر میں زاہد حسین کی کچھ ایسی تصاویر شامل کررہا ہوں، جن کو دیکھ کر نئی نسل کو اندازہ ہوگا کہ آدھی صدی قبل ایک پریس فوٹوگرافر کن مشکل حالات سے گذر کر ایک تصویر کھینچ لیتا تھا اور بعض اوقات تو تصویر کے پیچھے زندگی گنوانے کا جوکھم بھی اٹھانا پڑتا تھا۔
ایشین کار ریلی
یہ1970 میں ہونے والی ایشین کار ریلی کی تصویر ہے۔ ایران کے شہر تہران سے شروع ہونے والی کار ریلی ڈھاکہ۔ کھٹمنڈو۔ افغانستان۔ بھارت سے ہوتی ہوئی پاکستان پہنچی۔ نو ممالک کے 62 کاروں نے ریلی میں حصہ لیا اور 6800 کلو میٹر کی مسافت طے کرنے کے بعد جب کار ریلی لاہور پہنچی تو زاہد حسین نے ریلی کے مناظر کو محفوظ کیا۔ اس تصویر میں مشرقی پاکستان کے نمبر پلیٹ والی گاڑی پر چٹاگانگ لکھا ہوا ہے۔
بھارتی طیارے کی ہائی جیکنگ
زاہد حسین نے 1971 میں بھارتی طیارے کی ہائی جیکنگ کے واقعے کو نہ صرف اپنی تصاویر کے ذریعے بیان کیا لیکن اس واقعے پر ایک تفصیلی مضمون بھی لکھا ہے۔ اس واقعے کو بیان کرتے ہوئے زاہد حسین نے لکھا ہے، "یہ تیس جنوری 1971 کی بات ہے کہ میں دفتر پہنچا تو کرائم رپورٹر پرویز چشتی عرف بابا چشتی نے کہا کہ فوری طور پر لاہور ایئرپورٹ پہنچو، جہاں ہائی جیک ہونے والے بھارتی طیارے نے لینڈ کیا ہے۔ ان دنوں میرے پاس موٹر سائیکل نہیں تھی بلکہ میں سائیکل پر سفر کرتا تھا۔ میں لاہور کی گلیوں سے اپنی سائیکل کو تیز تیز دوڑاتا ہوا ایئرپورٹ پہنچا تو کوئی تلاشی یا چیکنگ وغیرہ نہیں تھی۔ سائیکل چھوڑ کر جونہی رن وے پر پہنچا تو دیکھا کہ کچھ رپورٹرز طیارے سے تین سو فٹ کے فاصلے پر کھڑے تھے۔ طیارے پر اس کا نام گنگا لکھا ہوا تھا۔ کچھ رپورٹرز نے بتایا کہ طیارے کو دو نوجوانوں نے ہائی جیک کیا ہے جن کے نام ہاشم قریشی اور اشرف قریشی تھے۔ یہ دونوں ایک دوسرے کے کزن تھے۔ ہائی جیکرز نے جموں کشمیر سے طیارہ ہائی جیک کیا تھا اور زبردستی لاہور پر اتارا تھا۔ یہ مسافر بردار طیارہ تھا جس میں مسافر بھی سوار تھے۔ ہائی جیکرز کا تعلق جموں کشمیر لبریشن فرنٹ سے تھا جس فرنٹ کا رہنما مقبول بٹ تھا۔ ہائی جیکرز نے ذوالفقار علی بھٹو سے بھی ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ بھٹو ان ہی دنوں میں ڈھاکہ میں شیخ مجیب الرحمان سے مذاکرات کر رہے تھے۔ وہ ڈھاکہ سے سیدھا لاہور ایئر پورٹ پہنچے اور رن وے پر ہی ہائی جیکرز کے ساتھ بات چیت کی۔ ہائی جیکرز طیارے کی کھڑکی سے بات کر رہے تھے۔ بھٹو نے ہائی جیکرز سے کہا کہ تمام مسافروں اور جہاز کے عملے کو آزاد کیا جائے۔ کم از کم خواتین اور بچوں کو فوری طور پر رہا کیا جائے۔ بھٹو نے رن وے ہی پریس کانفرنس سے خطاب کیا جس کے بعد ہائی جیکرز نے مسافروں کو طیارے سے نیچے اتارا۔ جہاز کے عملے کو بھی چھوڑا گیا جن کو لاؤنج میں لا کر چائے کھانا فراہم کیا گیا بعد ازاں تمام مسافروں کو سڑک کے راستے بھارتی حکام کے حوالے کیا گیا تھا۔ ہائی جیکرز 2 فروری تک ایئر پورٹ پر رہے۔ عوام کی بڑی تعداد ان کشمیری مجاہدین کو دیکھنے آتی تھی۔ ہم صحافی دو فروری تک وہیں رہے۔ رات کو ہائی جیکرز نے اچانک طیارے کو نذر آتش کردیا اور خود نیچے اترے تو سیکیورٹی حکام نے انہیں گرفتار کرکے سروس اسپتال پہنچا دیا کیونکہ ہائی جیکرز خود بھی جھلس گئے تھے۔ اپنی سائیکل پر سوار ہوکر میں پہلے دفتر پہنچا اور طیارہ جلنے کی کچھ تصاویر دفتر کے سپرد کرکے دوبارہ سائیکل پر سوار ہوا۔ میں اسپتال سے ایکسکلوسو تصاویر بنانے کی غرض سے نکلا۔ سروس اسپتال کے کاؤنٹر پر پہنچا ایک نرس سے معلومات لی جو ایئر پورٹر سے زخمی لائے گئے وہ کہاں ہیں؟ اس نے ایک کمرے کی جانب اشارہ کیا۔ میں دبے پائوں آہستہ آہستہ کمرے میں داخل ہوا دیکھا کہ ہاشم قریشی بستر پہ لیٹے ہوئے تھے۔ میں نے خاموشی سے کیمرہ نکالا اور دو تصاویر لیں۔ ہاشم قریشی نے صرف میری جانب دیکھا اور میں دبے پائوں واپس لوٹا۔ دوسرے کمرے میں جاکر اشرف قریشی کی کچھ تصاویر لیں قسمت نے ساتھ دیا کہ میں واپس نکل گیا کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ پریس فوٹوگرافرز کی آدھی اپنی محنت ہوتی ہے اور آدھا کام قسمت کے ساتھ دینے سے ہوتا ہے۔ اس کے بعد دونوں ہائی جیکرز اور مقبول بٹ کو گرفتار کیا گیا۔ مقبول بٹ کو بعد میں بھارتی حکومت نے پھانسی دیدی تھی۔ ہاشم قریشی دو سال بعد رہا ہوگیا لیکن اشرف قریشی 1980 تک لاہور کی جیل میں قید رہا۔ ہائی جیکنگ کے واقعے کے بعد بھارت نے مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کی ایئر لائنز پر پابندی عائد کردی تھی۔”
جیل جانے سے قبل بھٹو کی آخری تصویر
زاہد حسین زیدی نے پچھلی آدھی صدی کے تمام چھوٹے بڑے واقعات کو اپنے کیمرے میں محفوظ کیا۔ جس میں پانچ جولائی 1977 کے مارشل لا کے بعد کے حالات ہوں یا اس کے بعد سابق صدر جنرل ضیاۂ الحق کی پہلی پریس کانفرنس ہو یا پھر ذوالفقار علی بھٹو کی آزاد فضا میں اپنے بیٹے مرتضی بھٹو اور ایک ذاتی دوست کے ساتھ وہ آخری تصویر۔ ان تصاویر کے بارے میں زاہد حسین نے لکھا کہ اس تصویر کے بعد بھٹو کبھی جیل سے باہر نہیں آئے۔
ٹرک ڈرائیور کا عشق
زاہد حسین کی آپ بیتیوں میں کراچی کے اس ٹرک ڈرائیور کی داستان بھی شامل ہے جس نے ایک مسافر لڑکی سے پیار کی شادی کی تھی۔ جس کے عوض اسی ایک سو کوڑوں کی سزا سنائی گئی تھی۔ ٹرک ڈرائیور اللہ بخش اور مسافر لڑکی فہمیدہ کی شادی کی یہ داستان 1981 کی ہے فہمیدہ کے والدین اس شادی پر راضی نہ ہوئے تو دونوں نے گھر سے بھاگ کر شادی کی۔ فہمیدہ کے والدین نے زنا کا مقدمہ درج کروایا۔ ملک میں نیا نیا اسلامی قانون نافذ ہوچکا تھا۔ اسلامی عدالت نے اللہ بخش کو سنگسار کرنے اور فہمیدہ کو ایک سو کوڑوں کی سزا سنا دی۔ اس واقعے کے خلاف خواتین کی تنظیم ویمن ایکشن فورم بنی اور کراچی میں زبردست احتجاج بھی شروع ہوا خواتین کی تنظیم نے فیصلے کو سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کیا عالمی تنظیموں کی جانب سے آواز بلند ہونے پر فیصلہ منسوخ ہوگیا اللہ بخش اور فہمیدہ کو آزاد کردیا گیا۔
تصویروں کے عوض سیف الرحمان کی بڑی رقم کی پیشکش
زاہد حسین نے بے نظیر بھٹو کی شادی کی تمام تر لمحات کو محفوظ کیا تھا۔ وہ لکھتے ہیں، "1997 میں سینیٹر سیف الرحمان احتساب بیورو کا سربراہ بنا تو میں غیر ملکی رائیٹرز نیوز ایجنسی کا اسٹاف فوٹو گرافر تھے۔ ایک دن فون کی گھنٹی بجی کسی شخص نے کہا کہ فوٹو گرافر زاہد حسین سے بات کر نی ہے تو میںےکہا میں بول رہا ہوں۔ اگلا شخص کہنے لگا میں احتساب بیورو کا چیئرمین سیف الرحمان بول رہا ہوں۔ زاہد صاحب ہمیں آپ کی مدد کی ضرورت ہے۔ میں کہا کہ سر میں آپ کی کیا مدد کر سکتا ہوں۔ کہنے لگا ہمیں کچھ تصاویر درکار ہیں جو آپ کے پاس ہیں۔ ہمیں پتہ چلا کہ آپ نے بے نظیر بھٹو کی شادی کی تصاویر بنائی ہیں ہمیں ان غیر ملکی افراد کی تصاویر چاہئیں جنہوں نے بے نظیر بھٹو کو تحائف دیئے تھے۔ زاہد حسین لکھتے ہیں کہ میں نے کہا کہ میں اس سلسلے میں آپ کی کوئی مدد نہیں کر سکتا اور نہ کوئی تصویر دے سکتا ہوں۔ سیف الرحمان کہنے لگے ہم ان تصاویر کے بدلے آپ کا اچھی خاصی رقم دیں گے۔ میرے منع کرنے پر دھمکیاں دینے لگے کہ یہ ریاست کا کام ہے اگر آپ تصویر نہیں دوگے تو مشکلات میں بھی پڑ سکتے ہو۔ میں نے کہا آپ آئندہ مجھے فون مت کرنا یہ کہہ کر میں نے فون رکھ دیا اور کراچی پریس کلب پہنچ کر پی ایف یو جے اور کے یو جے کے عہدیداروں کو روئیداد سنائی تو صحافتی تنظیموں نے سینیٹر سیف الرحمان کے خلاف احتجاج شروع کردیا تھا۔
کیمرہ بھی تھا مگر تصویر نہیں بن سکی
زاہد حسین صنم بھٹو کی شادی پر سیکیورٹی والوں سے لڑ کر ستر کلفٹن تو پہنچ گیا تھا لیکن صنم بھٹو کی شادی کی تصویر نہیں بنا سکا۔ زاہد حسین نے لکھا کہ 1981 میں صنم بھٹو کی شادی ناصر حسین سے انتہائی سادگی میں ہوئی کیونکہ بے نظیر بھٹو جیل میں تھی بیگم نصرت بھٹو نے اکیلے یہ فرض انجام دیا۔ بے نظیر بھٹو نے پیرول پر رہائی کی درخواست دے رکھی تھی لیکن سندھ کے محکمہ داخلا پر دبائو تھا کہ پیرول نہ دیا جائے۔ بے نظیر بھٹو کو صرف شادی کے وقت لایا گیا تھا اور ستر کلفٹن کو سب جیل قرار دیا تھا۔ زاہد حسین کے مطابق وہ کیمرہ لے کر جب ستر کلفٹن پہنچا تو کافی رپورٹرز اور فوٹو گرافرز باہر کھڑے تھے۔ پولیس نے بتا دیا تھا کسی بھی پریس والے کو اندر جانے کی اجازت نہیں۔ صرف اس کو اجازت ہے جس کے پاس شادی کارڈ ہوگا۔ میں جب پہنچا تو میں نے سوچا شادی کارڈ تو میرے پاس بھی نہیں۔ پولیس کو کہا کہ میں ستر کلفٹن کا ذاتی فوٹو گرافر ہوں شادی کی تصاویر مجھے ہی بنانی ہیں لیکن پولیس نے کہا کہ اس کے لئے جب تک اندر سے کوئی حکم نہیں ملتا ہم نہیں چھوڑ سکتے۔ وہاں پر موجود چوکیدار نے پہچان لیا وہ اندر چلا گیا اور بیگم نصرت بھٹو کے خاص ملازم دوست محمد کو لے کر آگیا۔ دوست محمد نے پولیس اہلکار کو کہا کہ یہ ہمارے گھر کا بندہ ہے اندر نہیں جائے گا تو شادی کیسے ہوگی ؟ پولیس والے نے مجھے دوست محمد کے ہمراہ چھوڑ دیا۔ اندر گیا تو بیگم بھٹو نے دیکھتے ہی دوست محمد کو کہا کہ زاہد سے کیمرہ لے کر اندر رکھ لو۔ مجھے کہا کہ زاہد تمہیں حالات معلوم ہیں اور ہم نے انتظامیہ سے معاہدہ کیا ہوا ہے کہ شادی میں کسی پریس والے کو نہیں بلائیں گے۔ تم کھانا کھائو۔ بعد میں چلے جانا۔ اس کے بعد میں بے نظیر بھٹو سے ملا بہن کی شادی کی مبارک باد دی۔ میں کوئی تصویر نہیں بنا سکا۔ بعد میں بیگم بھٹو نے خود ہی شادی کی ایک تصویر بھیجی بعد ازاں وہ ہی تصویر تمام اخبارات میں شائع ہوئی۔
صحافی کا کرنل بیٹا ملٹری کورٹ میں کام آگیا
زاہد حسین نے مشہور زمانہ جام ساقی کیس میں گواہ کے طور بے نظیر بھٹو کی آمد کے حوالے سے ایک دلچسپ قصہ تحریر کیا ہے، جب مرحوم ابراہیم جلیس کا کیپٹن بیٹا ملٹری کورٹ تک رسائی میں کام آگیا ( ابراہیم جلیس کراچی کے معروف صحافی رہے ہیں۔ کراچی پریس کلب کا ہال ان کے نام سے منسوب ہے )
زاہد حسین لکھتے ہیں کہ یہ 27 مارچ 1983 کا واقعہ ہے جس دن ملٹری کورٹ میں بے نظیر بھٹو کو جام ساقی کے گواہ کے طور پر لایا جا رہا تھا۔ ان دنوں مساوات بند ہو چکا تھا میں روزنامہ امن میں بہت ہی کم تنخواہ پر کام کر رہا تھا۔ اپوزیشن کی کوریج کے دوران پولیس سے ڈنڈے کھاتے کھاتے ہاتھا پائی کے دوران کیمرہ بھی ٹوٹ چکا تھا جس کو ٹیپ لپیٹ کر چلا رہا تھا۔ 1977 میں اسپورٹس کمپلیکس میں تصاویر بناتے بہت تشدد ہوا تھا اور ڈی پی آر میں گرفتار کیا گیا تھا تب سے میں نے سنا تھا کہ فوج میں ایک کیپٹن جلیس بھی ہیں۔ بعد ازاں ابراہیم جلیس کے صحافی بیٹے نے بتایا تھا کہ اس کا ایک بھائی فوج میں کیپٹن ہے۔ مجھے وہ پوری بات ذہن میں تھی پتہ چلا کہ ملٹری کورٹ کے سربراہ کرنل عتیق جلیس ہے تو میں نے سوچا کہ کیوں نہ کرنل عتیق سے ملاقات کی جائے اور تصویر لینے کی اجازت لی جائے۔ میں نے یہ ہی کیا کہ کرنل تک پہنچ گیا۔ پہلے تو ان سے ان کے والد کی تعزیت کی اور انہیں بتایا کہ جلیس صاحب ہمارے بڑے محترم دوست تھے۔ پھر کرنل عتیق کو عرض کی کہ ملٹری کورٹ میں کاروائی کی تصویر بنانے کی اجازت دی جائے۔ لیکن کرنل عتیق نے صاف انکار کردیا۔ میں نے انہیں قائل کرتے ہوئے کہا کہ جب تصویر بنے گی اور شایع ہوگی تو عدالت کی غیر جانبداری ظاہر ہوگی پھر انہوں نے کہا کہ میں اعلی افسران سے بات کرنے کے بعد بتا دوں گا۔ ہمیں تصویر بنانے کی مشروط اجازت ملی کرنل عتیق نے کہا کہ صرف ایک اخبار کو نہیں بلکہ دیگر اخبارات کے فوٹوگرافرز کو بھی بلوایا جائے اور دوسری شرط یہ تھی ڈان اخبار میں تصویر شایع کرانا تمہاری ذمے داری ہوگی۔ ہم نے دونوں شرائط تسلیم کرتے ہوئے تصاویر بنائی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی کرسی کا رخ تبدیل کرنے کی عرض کی جج نے کہا کہ رخ تبدیل کر لیں جام ساقی وہیں ہتھکڑی کے ساتھ کھڑے تھے تصویر بنا لی۔ وہیں سہیل سانگی۔ بدر ابڑو۔ شبیر شر وغیرہ بھی ملے بعد ازاں بے نظیر بھٹو اس کمرے میں آئیں جہاں ہم پریس والے بیٹھے تھے سب نے بے نظیر بھٹو کے ساتھ تصویریں بنوائیں۔ دوسرے دن وہ تصویر دنیا بھر کے اخبارات میں شایع ہوئی تھی۔
بینظیر بھٹو کراچی پریس کلب میں
زاہد حسین زیدی کی آپ بیتیوں میں تاریخ کی کئی طویل داستانیں ہیں یہ آپ بیتیاں جو اب تک شائع نہیں ہو سکیں۔ کیونکہ زاہد حسین نے پوری زندگی اپنی تصاویر کی حرمت کو ایماندارنہ اور پیشہ ورانہ فلسفے کے ساتھ جوڑ رکھا انہوں نے کبھی کوئی تصویر نہیں بیچی البتہ کراچی پریس کلب میں جب 29 مئی 1986 کو بے نظیر بھٹو کی تصاویر کی نمائش کا انعقاد کیا تو بے نظیر بھٹو نے نمائش میں رکھی 350 تصاویر مانگ لیں۔ دوسرے دن ان کا ملازم بڑی گاڑی لے کر پریس کلب پہنچا۔ زاہد حسین لکھتا ہے کہ نمائش میں بے نظیر بھٹو نے رک کر مارکر منگوایا اور ایک تصویر پر خود ہی آٹوگراف لکھا۔ میں نے وہ تصویر چھوڑ کر دیگر تمام تصاویر بے نظیر بھٹو کو بھجوا دیں لیکن وہ ایک ہی تصویر میرے لئے مشکلات کی وجہ بنتی رہی لائینز ایریا میں جب وہ تصویر اپنے گھر میں سجا لی تو روزانہ ایک پارٹی کے کارکن پتھر پھینکتے تھے۔ بلا آخر تصویر ہٹا کر بیڈ کے نیچے رکھ لی برسوں تک یاد ہی نہیں رہا جس وجہ سے وہ تصویر ہی خراب ہوگئی۔
زاہد حسین کی آدھی صدی کی تصاویر کے ساتھ منسلک داستانوں پر کئی کتابیں لکھی جا سکتی ہیں۔ وہ پاکستان کی آدھی صدی سے بھی زائد عرصے کے حالات اور واقعات کے گواہ ہیں۔ وہ اپنے دور کے واحد پریس فوٹو گرافر ہیں جنہوں نے بہت کٹھن حالات کا مقابلہ کیا۔ کئی بار زخمی ہوئے۔ دانت تڑوائے۔ ڈنڈے لگنے سے سر پھٹا۔ انہوں نے 19 کیمرے تڑوائے۔ ایک بار ہنگامہ آرائی میں کیمرہ ٹوٹ گیا تو بے نظیر بھٹو نے اپنے ذاتی استعمال کا چھوٹا کیمرہ تحفے میں بھیجا جو آج بھی زاہد حسین کے پاس محفوظ ہے۔ زاہد حسین نے زندگی کے ہر رنگ اؤر ہر رخ کو اپنے کیمرہ میں محفوظ کیا لیکن وہ کہتے ہیں کہ وہ چاہتا ہے کہ اس کے پاس ہزاروں کی تعداد میں نیگٹوز تباہ ہو رہی ہیں ان کو کسی بھی طرح محفوظ کیا جائے۔ دو برس قبل کراچی پریس کلب میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سے ملاقات کرکے انہوں نے بتایا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو۔ بے نظیر بھٹو کی سرگرمیوں سے لے بھٹو خاندان کی ہر سیاسی سرگرمی کا ریکارڈ ان کے پاس ہے۔ لیکن یہ سب کچھ ان سے سنبھالا نہیں جا رہا۔ اس تاریخی ریکارڈ کو آرکائیو کیا جائے۔ محفوظ کیا جائے۔ زاہد حسین نے پوری زندگی تاریخ کی تصویر کشی کی ہے اب یہ ذمے داری قوم کی ہے کہ وہ اپنی تاریخ کے ساتھ کیا رویہ اختیار کرتی ہے۔
نوٹ۔ اس تحریر میں زاہد حسین کی شامل کی جانے والی تمام تصاویر ان کے سوشل میڈیا اکائونٹ سے لی گئی ہیں۔