اگر میں کہوں کہ پاکستان کی تاریخ میں چند بہترین پلئیرز کا نام لیں تو آپ اپنے اپنے طور پر اچھی بیٹنگ کرنے والوں کی فہرست مرتب ضرور کریں گے۔ میں یہ دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ اچھا کھیلنے والوں کی فہرست میں آپ یونس خان کو ضرور شامل کریں گے اس لئے نہیں کہ وہ آپ کے پسندیدہ کھلاڑی رہے ہیں بلکہ اس لئے کہ وہ ایک بہترین بیٹسمین رہے ہیں۔
یونس خان 29 نومبر 1977 کو خیبر پختونخواہ کے شہر مردان میں پیدا ہوئے۔ یونس کو کرکٹ کا شوق بچپن سے ہی تھا۔ مردان جہاں کھیلوں کے اعتبار سے سہولیات زیادہ موجود نہ ہونے کے باوجود بھی یونس کا کرکٹ کے لئے جنون کم نہ کر سکی۔ خوب محنت کی لیکن مردان کرکٹ ٹیم میں جگہ نہ بنا پائے۔ جگہ نہ بنانے کی وجہ سے مایوس ہونے کے بجائے انہوں نے اپنی جدوجہد جاری رکھی۔ وہ کہتے ہیں نا کہ انسان جو چیز ٹھان لے وہ کرکے رہتا ہے۔ وہ مردان سے پشاور چلے گئے اور وہاں محنت کرکے انڈر 19 ٹیم میں اپنی جگہ بنانے میں کامیاب رہے۔ 2000 میں پاکستان کے لئے پہلا ٹیسٹ میچ سری لنکا کے خلاف کھیلا اور پہلے ہی میچ میں انہوں نے سینچری بنا ڈالی تھی۔
یونس خان کا کرکٹ کیریئر بہت ہی شاندار رہا ہے۔ یہ پاکستان کے واحد کھلاڑی ہیں جنہوں نے ٹیسٹ میں دس ہزار رنز کا ہندسہ عبور کیا اور دنیا کے واحد کھلاڑی ہیں جنہوں نے ہر ٹیسٹ میچ کھیلنے والی ٹیم کے خلاف سینچری سکور کی ہے۔ یہ پاکستان کے تیسرے کھلاڑی ہیں کنہوں نے ٹیسٹ میں ٹرپل سینچری اسکور کی ہے اس سے پہلے حنیف محمد اور انضمام الحق ٹیسٹ میں ٹرپل سینچری کر چکے ہیں۔ یونس خان کی قیادت میں پاکستان نے 2009 کا ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ اپنے نام کیا تھا۔
جہاں یونس خان کا کرکٹ کیرئیر اس قدر شاندار رہا وہاں ان کی اپنی شخصیت متنازع سے تو پاک رہی لیکن ایک اصول پسند انسان ہونے کے سبب انہیں کئی بار مشکلات کا سامنا بھی رہا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان میں وہ شخص ترقی کرتا ہے جو ہر بات پر یس سر کرنا جانتا ہو۔ یونس خان بدقسمتی سے ان لوگوں میں سے نہیں جو ہر بات پر یس سر کریں۔ یہی وجہ تھی کہ وہ ٹی ٹوئینٹی کپتانی پر بھی بہت زیادہ عرصے تک برقرار نہیں رہے اور آپسی اختلاف کے باوجود کپتانی سے دستبردار ہوگئے۔
پچھلے کئی سالوں سے پاکستان کی بیٹنگ پرفارمنس تسلی بخش نہیں ہے۔ بیٹنگ بہتر کرنے کے لئے پی سی بی نے کئی بار یونس خان سے درخواست کی کہ وہ اپنی خدمات انجام دیں لیکن یونس خان نے ہر بار ایک ہی شرط رکھی کہ میں اپنے طریقے سے کام کروں گا اور اپنے کام میں کسی کی مداخلت برداشت نہیں کروں گا۔ ہاں نا کے درمیان بہت عرصہ گزر گیا تو پی سی بی نے یونس خان کی شرطیں مان لیں اور انہیں ان کی مرضی کے مطابق کوچ کرنے پر رضا مندی ظاہر کردی اور اس طرح یونس خان نومبر 2020 میں دو سال کے لئے پاکستان کے بیٹنگ کوچ بنا دیے گئے۔
ویسے تو یونس خان کا کونٹریکٹ دو سال کا تھا لیکن یونس خان نے آج اچانک اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ میڈیا نے جب ان سے وجہ پوچھی تو یونس خان نے کوئی وجہ نہیں بتائی بلکہ ایک بیان جاری کردیا کہ یہ استعفیٰ ان کے اور پی سی بی کی باہمی رضا مندی ہے۔ جبکہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیف ایگزیکٹو وسیم خان کا کہناہے کہ یونس خان جیسی قدآور اور تجربہ کار شخصیت کو کھونا افسوسناک ہے۔ دونوں فریقین نے طویل مشاورت کے بعد باہمی اتفاق رائے سے راہیں جدا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وہ مختصر دورانیہ کے لیے قومی کرکٹ ٹیم کے بیٹنگ کوچ کی حیثیت سے یونس خان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہیں، پرامید ہیں کہ وہ اپنے تجربے اورقابلیت کے تبادلے کے لیےمستقبل میں بھی پی سی بی کو دستیاب ہوں گے۔
لیکن بات اتنی سادہ تو نہیں ہوسکتی جتنا دونوں فریقین بتا رہے ہیں۔ بقول غالب بے خودی بے سبب نہیں غالب کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔ کچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ یونس خان اور پی سی کے درمیان کچھ عرصے سے معاملات بہتر نہیں چل رہے تھے۔ مختلف اختلافات کی وجہ سے یونس خان نے دورہ انگلینڈ سے قبل لاہور کے بائیو سکیور ببل میں بھی رپورٹ نہیں کی۔
یونس خان کو متعدد امور پر پی سی بی انتظامیہ سے اختلافات تھے، جنوبی افریقہ کے خلاف ہوم سیریز سے پہلے محمد یوسف کو کیمپ میں بھیجنا بھی یونس خان کو ناگوار گزرا تھا ، این ایچ پی سی کے کوچز اور ان کے طریقے پر بھی یونس خان کو تحفظات تھے جس پر چیف ایگزیکٹو وسیم خان نے ذاتی کوششوں سے یونس خان کو بیٹنگ کوچ کے لیے رضا مند کیا تھا۔
بات جو بھی ہو یونس خان جیسے عظیم کھلاڑی کی خدمات سے محروم ہونا پاکستان کرکٹ کا ہی نقصان ہے۔