مظفرآباد: دنیا بھر میں بسنے والے کشمیری آج یوم شہدائے کشمیر منارہے ہیں، بھارتی مظالم کے خلاف مختلف شہروں میں ریلیاں نکالی گئیں، جن میں آزادی کی حمایت اور مودی سرکار کے خلاف شدید نعرے بازی کی گئی۔
ایک اذان جو بائیس لوگوں اپنی جان دے کر پوری کی، ایک پیغام جو کشمیری عوام کی رگوں میں لہو بن کر دوڑ رہا ہے، یوم شہدائے کشمیر، ڈوگرہ راج کے خلاف جدوجہد اور قربانی کی لازوال داستان ہے۔ 13 جولائی 1931 کو سری نگر سینٹرل جیل میں قید کشمیری نوجوان عبدالقدیر کے خلاف بغاوت کے مقدمے کی سماعت تھی۔ اس موقع پر ہزاروں کشمیری جیل کے باہر جمع ہوگئے، نماز ظہر کے وقت ایک کشمیری نوجوان نے اذان کی صدا بلند کی تو ڈوگرہ سپاہی نے گولی مار کر اسے شہید کردیا۔
توحید کے پروانوں نے وہیں سے اذان کو آگے بڑھایا تو ڈوگرہ سپاہی بھی گولیاں برساتے رہے، ایک کے بعد ایک جوان جام شہادت نوش کرتا گیا لیکن آذان گونجتی رہی اور یوں 22 کشمیریوں نے اپنی جان دے کر اذان مکمل کی۔
کشمیری عوام کا ظلم کے خلاف نہ جھکنے کا یہ عہد آج 89 سال بعد انتفاضہ کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ 90 کی دہائی میں تحریک آزادی کے فیصلہ کن معرکے کا آغاز ہوا تو 5 اگست 2019 کے بعد اب بھارت سے آزادی کی یہ جنگ اپنے نکتۂ عروج پر پہنچ چکی ہے۔ لائن آف کنٹرول کے دونوں اطراف اور دنیا بھر میں بسنے والے کشمیری آج یوم شہدائے کشمیر اس عہد کی تجدید کے ساتھ منارہے ہیں کہ بھارت کے غاصبانہ تسلط سے مکمل آزادی تک تکمیل پاکستان کی یہ جنگ پورے عزم کے ساتھ جاری و ساری رہے گی۔