باغ بہشت کے ایک گوشے میں گھنے درختوں کے نیچے، پھولوں کے تختوں کے درمیان، جوئبار کے کنارے ایک میز لگی ہے، جس کے گرد کرسیوں پر ناصر کاظمی، شیخ صلاح الدین، اور حنیف رامے براجمان ہیں۔ ایک کرسی خالی ہے۔ ناصر کاظمی پر کسی قدر غنودگی طاری ہے اور حنیف رامے نے فرط عقیدت سے شیخ صاحب کا ہاتھ تھام رکھا ہے۔
شیخ صاحب کہتے ہیں ناصر دیکھو یہاں جو درخت ہیں، ان پر سدا بہار رہتی ہے۔ ان کے پتے نہیں جھڑتے کیونکہ دنیائے فانی میں گرتے پتوں کو دیکھ کر تم بہت اداس ہوجایا کرتے تھے۔ گرتے پتوں کا ذکر سنتے ہی ناصر اپنی غنودگی سے چونکتے ہیں: شیخ صاحب! گرتے پتوں سے یاد آیا کہ ایسا ہی موسم تھا جب انتظار حسین سے میری پہلی ملاقات ہوئی، جو زندگی بھرکی دوستی میں ڈھل گئی تھی۔ مجھے ایک فرشتے نے بتایا ہے کہ دنیائے فانی میں انتظار کی طبیعت ٹھیک نہیں اور وہ اسپتال میں داخل ہے۔ شیخ صاحب آپ کو تو یا د ہو گا کہ مارچ کی دو تاریخ تھی جب میں نے رخت سفر باندھا تھا۔ آپ بھی اپریل کی دو تاریخ کو ہی یہاں وارد ہوئے تھے۔ آج بھی وہاں فروری کی دو تاریخ ہے، خدا خیر کرے۔ حنیف کو ہر کام میں ذراجلدی ہوتی تھی۔ یہ پہلی جنوری کو ہی چل پڑا تھا۔
ا تنے میں حنیف رامے نے سر اٹھایا اور سامنے دیکھتے ہوئے کہنے لگے، یہ تو کوئی شناسا سا چہرہ ہے جو اس جانب چلا آ رہا ہے۔ سب اس طرف متوجہ ہو جاتے ہیں۔ کیا دیکھتے ہیں کہ انتظار حسین چلے آ رہے ہیں۔ تینوں کو دیکھتے ہی اپنی شرمیلی مسکراہٹ سے کہتے ہیں میں ابھی ابھی یہاں پہنچا ہوں۔ اپنا ٹھور ٹھکانہ معلوم کرنے سے پہلے ہی ناصر کا پتہ پوچھتے پچھاتے سیدھا ادھر چلا آیا ہوں کیونکہ مجھے پتہ تھا کہ منڈلی جمع ہو گی۔ تینوں بہت مسرت کے ساتھ انتظار حسین کا استقبال کرتے ہیں۔
ناصر: تمہارے آنے سے ’خوشبو کی ہجرت‘ مکمل ہوئی۔ میں تو کچھ جلدی ہی چلا آیا تھا۔ یہاں پہنچتے ہی طرح طرح کے شاعروں نے گھیر لیا تھا۔ ہر کوئی اپنی غزل سنانے کے درپے تھا اور ان سے کوئی چھٹکارا نہیں تھا۔ مگر جب سے شیخ صاحب تشریف لائے ہیں شاعروں کا مجمع چھٹ گیا ہے۔ شیخ صاحب کے ٹی ہاؤس آنے کے بعد بھی ایسا ہی ہوا تھا، لیکن اب مجھے ہر وقت فلسفہ سننا پڑ رہا ہے۔ تمہیں تو پتا ہے کہ وہاں بھی چینیز لنچ ہوم کی دوپہروں میں شیخ صاحب فلسفہ زمان پر بہت بات کیا کرتے تھے۔ پچھلے دنوں کراچی سے ایک فلسفی عبد الحمید کمالی بھی یہاں تشریف لائے ہیں۔ شیخ صاحب جب سے انہیں مل کر آئے ہیں اس وقت سے یہ کہہ رہے ہیں کہ یہاں جو زمان ہے اس کی آٹھ جہات ہیں۔ خیر جب سے حنیف آیا ہے میرا بوجھ کچھ ہلکا ہو گیا ہے کیونکہ اب میں اونگھتا رہتا ہوں، یہ فلسفہ سنتا اور اس پر شاگردانہ انداز میں سوالات پوچھتا رہتا ہے۔ حنیف کے آنے کے بعد مصوری کا بھی کچھ تذکرہ ہونے لگا ہے۔ شیخ صاحب بوتی چیلی کی کسی تصویر پر اپنے ناول میں کچھ لکھنا چاہتے تھے جو وہ لکھ نہ پائے۔ اب زیادہ تر وقت حنیف کے ساتھ مغربی مصوری کی روایت پر گفتگو کرتے ہیں۔ اب تم آگئے ہو تو سناؤ ہمارے بعد کیا کرتے رہے ہو؟
انتظار حسین: وہی کہانیاں لکھتا رہا ہوں، ناو ل لکھے ہیں۔ کالم لکھتا رہا ہوں، اپنی سوانح بھی لکھی، جس میں سب دوستوں کو بہت یاد کیا تھا۔ بس جب تک وہاں رہا، قلم کی مزدوری کرتارہا۔ قاسمی صاحب کے چلے آنے کے بعد میں سینئر ادیب بھی ہو گیا تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ادبی جلسوں کی صدارت کرنا بھی میرے فرائض میں شامل ہو گیا تھا۔
ناصر: ایک دن حنیف تمہارے ایک افسانے ’ہندوستان سے ایک خط‘ کا بہت ذکر کر رہا تھا۔ یہ افسانہ میرے وہاں سے آنے کے شاید برس دو برس بعد ہی تم نے لکھا تھا۔ اس کاایک جملہ تو باربار دہراتا تھا اورداد دیتا تھا کہ کیا پتے کی بات کی ہے۔
انتظار: اچھا تو وہ کون سا جملہ ہے جو حنیف کو اتنا پسند آیا تھا؟
ناصر: ’قیمتیں چڑھ کر کبھی گرا نہیں کرتیں اور اخلاق گر کر کبھی سنبھلا نہیں کرتے۔‘ مظفر علی سید نے بتایا تھا کہ تمہارے ناول’ بستی‘ کو بہت شہرت ملی تھی۔ پھر تم نے ایک اور ناول’ آگے سمندر ہے‘ بھی لکھا ہے، جس کو لوگوں نے بہت پسند کیا تھا۔ بلکہ شیخ صاحب نے تو میرے ساتھ اس پر اچھی خاصی گفتگو بھی کی تھی۔
انتظار: شیخ صاحب کی تو الگ ہی رائے ہوتی ہے۔ میں کسی وقت ضرور جاننا چاہوں گا۔
حنیف رامے: کچھ مہینے پہلے عبداللہ حسین شیخ صاحب سے ملنے آئے تھے۔ تمہارے بارے میں بہت سی باتیں کی تھیں۔ بتاتے تھے کہ تمہارے ادبی کام کی بہت پذیرائی ہو ئی ہے۔ تمہیں بہت سے اعزازات ملے ہیں۔ فرانس کی حکومت نے بھی ایوارڈ دیا ہے۔ اردو کے پہلے ادیب ہو جس کا نام مین بکر ایوارڈ کی فہرست میں شامل ہوا۔
ناصر: کچھ سناؤ وہاں کا کیا احوال ہے؟ لاہور شہر کا کیا حال ہے؟
انتظار: تم نے اسپتال سے لاہور شہر کے درختوں اور چڑیوں کو اپنا آخری سلام بھجوایا تھا۔ اب درخت کٹتے جا رہے ہیں؛ چڑیاں شہر سے کوچ کر گئی ہیں۔ لاہور کا وہ حال ہو گیا ہے کہ تم دیکھو تو پہچان نہ پاؤ۔ شہر کیا ہے کنکریٹ اور سریے کا ایک جنگل بن گیا ہے۔ برسوں کے جانے پہچانے راستے بھی اجنبی ہو گئے ہیں۔ آج اگر تم ٹی ہاؤس سے کرشن نگر جانا چاہو تو راستہ نہ ڈھونڈ پاؤ گے۔ ٹی ہاؤس کی بھی وہ صورت باقی نہیں رہی، نہ شب گزیدوں کے وہ دوسرے ٹھکانے، جنہیں احمد مشتاق نے امریکہ میں بیٹھ کر یا د کیا ہے:
ان ٹھکانوں کے نشانات بھی باقی نہ رہے
جمع ہوتے تھے مرے یار جہاں آخرِِ شب
ملک کااحوال اور بھی درہم ہے۔ تمہاری آنکھوں نے مشرقی پاکستان کو ڈوبتے دیکھا تھا۔ جب وہاں خون کی ہولی کھیلی جا رہی تھی، تم نے غزل لکھی تھی جس کا ایک شعر اس وقت یاد آ رہاہے:
یہاں تک آئے ہیں چھینٹے لہوکی بارش کے
وہ رن پڑا ہے کہیں دوسرے کنارے پر
تب دوسرے کنارے کی بات تھی، اب تو اس کنارے پر بھی خون بہہ رہا ہے، کچھ پتہ نہیں کون کس کو مار رہا ہے اور کیوں؟ نہ بازار محفوظ ہیں نہ درسگاہیں، نہ مزار، نہ مسجدیں اور امام بارگاہیں۔ اسپتالوں اور جنازوں پر بھی حملے ہو رہے ہیں۔ کہتے ہیں اسلام خطرے میں ہے، مجھے تو ایسا لگتا تھا کہ ان کے اسلام سے سب خطرے میں ہیں۔ دیکھو احمد مشتاق کا شعر پھر یاد آ رہا ہے:
دیکھیے اہلِ دین کا اعجاز
موت بھی ہو گئی شریکِ نماز
شیخ صاحب: جب تک پاکستان میں روایتی فرقہ وارانہ اسلام کا غلبہ رہے گا امن قائم نہیں ہو سکتا۔ پُر امن معاشرے کے قیام کے لیے لازم ہے کہ قرآنی اصولوں کی بنیاد پر اجتماعی نظام کی تشکیل کی جائے۔ اس کے لیے ضروری ہو گا کہ روایات کا جھاڑ جھنکار ہٹا کر قرآن کے اصلی اور حقیقی معنوں کی بازیافت کی جائے۔ پاکستانی مسلمانوں کو صرف قرآن کے قوانین، اصولوں اور اقدار کے مطابق جینا ہو گا اور ان کے مطابق جدوجہد کرتے ہوئے اس جہاد مسلسل کو زندہ رکھنا ہو گا، جب تلک ہر بنی آدم واجب التکریم نہ بن جائے۔ اس کو رزق عزت اور آبرو کے ساتھ مہیا نہ ہونا شروع ہو جائے اور کوئی آدم زاد کسی دوسرے آدم زاد پر حکم نہ ہو، گھر کے ماحول سے لے کر دفتر، کارخانوں اور کھیتوں میں ہر معاملہ باہمی مشورے کے ذریعے سے، قرآن کے مطابق، اتفاق رائے سے طے ہونا شروع نہ ہو جائے۔‘
حنیف رامے: پیر و مرشد! اس اندوہناک صورت حال سے چھٹکارا کیسے ممکن ہے؟
شیخ صاحب: اس کے لیے اہل پاکستان کو نہ صرف’قرآن کے جہان معنی میں داخل ہونا‘ پڑے گا بلکہ انہیں اقبال اور جناح کی فکرکی طرف بھی لوٹنا ہو گا جس کو وہ فراموش کر چکے ہیں۔ وہ وقت آنے والا ہے جب ایسا ضرور ہو گا۔
ناصر: افسوس ہوا یہ حالات جان کر۔ یہ تمہارے ہاتھ میں کیا ہے؟
انتظار: شیخ صاحب یہ آپ کا ناول ہے۔
حنیف رامے: واہ، توکیا یہ چھپ گیا تھا؟
انتظار: شیخ صاحب کے اگلی نسل کے مداحوں نے ان کی آٹھویں برسی پر بڑی ہبڑ دبڑ میں اس کی اشاعت کی تھی۔ تقریب پہلے رکھ لی تھی اورعین تقریب کے موقع پر مقررین کے ہاتھ میں ناول تھما دیا تھا۔
ناصر کتاب کو دیکھتے ہوئے کہتے ہیں: کیا اس کو” خوشبو کی ہجرت“ کے نام سے چھاپا گیا ہے؟ شیخ صاحب اس عنوان سے تو ہمارا ایک مکالمہ’ سویرا‘ میں شائع ہوا تھا۔
حنیف: جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے، آپ نے اس کا نام تبدیل کرکے ’خوشبو کی گلیاں‘ رکھا تھا۔
شیخ صاحب: رکھا تو تھا مگر میں نے پہلا نام بھی قلم زد نہیں کیا تھا۔ اس وقت ناصر نے کہا تھا کہ آپ کا ناول تو پتہ نہیں کب چھپے گا، فی الحال یہ عنوان ہمارے مکالمے کے لیے دے دیں۔ اب چھاپنے والوں نے جس نام سے چاہا اس کو چھاپ دیا۔ ویسے اس کا چھپنا میرا مسئلہ نہیں تھا۔
حنیف: (کتاب کو کھول کر دیکھتے ہیں اور فلیپ کی عبارت پڑھتے ہیں) ”اس ناول کے افراد کردار نہیں بلکہ شخصیات ہیں جو خود آگاہ اور خود نگر ہی نہیں بلکہ خود گر بھی ہیں۔ ہر فرد حیات کا ایک مختلف وژن رکھتا ہے۔ ناول میں تہہ در تہہ اور طبق در طبق مناظر ہیں جو حیات اور فطرت کو اتنے متنوع رنگوں میں ہمارے سامنے پیش کرتے ہیں کہ تمام ناول طلسم کا ایک حیرت خانہ نظر آتا ہے۔ اس میں دھرتی اور آکاش میں کامل سمبندھ ہے اور دھرتی کے تمام رنگ سانس لیتے محسوس ہوتے ہیں۔ اس ناول میں نثر کے اتنے مختلف لحن اور آہنگ ہیں کہ ان پر موسیقی کا گمان ہوتا ہے۔ میں تو اس کو فوراً پڑھوں گا۔ اس کے چند ابواب پہلے پڑھ چکا ہوں۔
انتظار: اے عزیز! مجھے پتہ تھا کہ اس بار گراں کو تمہی اٹھا سکتے ہو، مجھے تو اتنا وقت ہی نہیں ملا کہ اسے ڈھنگ سے پڑھ سکتا۔ اور ہاں، باصر کی کلیات چھپ گئی ہے: شجر ہونے تک۔ اس میں اس کی شاعری اور ڈرامے شامل ہیں۔
ناصر: اچھا کلیات بھی چھپ گئی ہے اس کی!
انتظار: بھئی اس نے تو بہت نام کما لیا ہے۔ شعر بہت عمدہ کہتا ہے۔ بعض بعض اشعار تو ایسے ہیں جو ضرب المثل بننے کی غمازی کرتے ہیں۔
شیخ صاحب: اس کے پہلے مجموعے پر میں نے لکھا تھا کہ اے پسر، تو نے اپنے باپ کی لاج رکھ لی!
انتظار: ناصر، پسر اور پد ر سے اس کا یہ شعر یاد آ گیا:
اس کاروبار عشق میں ایسی ہے کیا کشش
پہلے پدر خراب ہوا پھر پسر خراب
حنیف رامے: واہ وا!
ناصر: اچھا دوستو! کافی دیر ہو چکی ،اب مجھے نیند آ رہی ہے۔ انتظار، تم ابھی ابھی آئے ہو، آرام کرو، تازہ دم ہو کر پھر محفل گرم کریں گے۔ حنیف تم ایسا کرو کہ مظفر علی سید، صلاح الدین محمود اور محبوب خزاں کو، اور ہاں شیخ صاحب کے ’ٹیلنٹڈ کزن‘ مشفق خواجہ کو بھی اطلاع کر دو۔ اس کے بعد ناصر یہ شعر گنگناتے ہوئے وہاں سے رخصت ہوتے ہیں:
دائم آباد رہے گی دنیا
ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہو گا۔